تھائی لینڈ کے بادشاہ کی پرتعیش ہوٹل میں 20 خواتین کے ساتھ خود ساختہ تنہائی

تھائی ہیش ٹیگ 'ہمیں بادشاہ کی ضرورت کیوں ہے؟'  ٹوئٹر پر 24 گھنٹوں کے اندر 12 لاکھ بار شیئر ہوا۔ اس آن لائن تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب ایک سماجی کارکن نے یہ دعویٰ کیا کہ بادشاہ ایک ایسے وقت عیش و عشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں جب یہ وبا ملک میں پھیلتی جا رہی ہے۔

(اے ایف پی)

تھائی لینڈ کے متنازع بادشاہ کرونا وبا کے پیش نظر جرمنی کے قصبے گارمیش پارٹینکرچین کے ایک پرتعیش ہوٹل میں اپنے ملازمین کی فوج کے ساتھ خود ساختہ تنہائی میں چلے گئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ تھائی بادشاہ مہا واجرالونگ کارن، جو راما ایکس کے نام سے بھی مشہور ہیں، نے ضلعی کونسل کی جانب سے 'خصوصی اجازت' حاصل کرنے کے بعد پورے گرینڈ ہوٹل سوننبچل کو بک کروایا تھا۔ الپائن ریزورٹ کے اس پر تعیش فور سٹار ہوٹل میں تھائی بادشاہ کو پورے جاہ و جلال کے ساتھ براجمان ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔

جرمن اخبار بلڈ کی رپورٹ کے مطابق 67 سالہ بادشاہ کی اس ملازمین کی فوج میں متعدد خادمین کے علاوہ 20 خواتین پر مشتمل ایک 'حرم' بھی شامل ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس گروہ میں بادشاہ کی چار بیویاں بھی ہوٹل میں قیام پذیر ہیں یا نہیں۔

اس خطے کے تمام گیسٹ ہاوسز اور ہوٹلوں کو کرونا وائرس کے بحران کی وجہ سے بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن مقامی ضلعی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ گرینڈ ہوٹل سوننبچل کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایک ہی گروہ سے تعلق رکھنے والے ان مہمانوں میں کوئی اثرات نہیں پائے گئے۔

تاہم مبینہ طور پر اس وفد کے 119 ارکان میں اس انتہائی متعدی بیماری کی موجودگی کے شہبے ان کو واپس تھائی لینڈ بھیج دیا گیا تھا۔

اس پرتعیش جگہ پر بادشاہ کی سیلف آئیسولیشن کی خبر نے ہزاروں تھائی باشندوں میں غصے کی لہر دوڑا دی جنہوں نے آن لائن تنقید کرکے اس ملک کے قوانین کو توڑنے کا خطرہ مول لیا۔ ملک میں شاہی خاندان پر تنقید کو سنگین غداری تصور کیا جاتا ہے۔

شاہی قوانین کے تحت بادشاہت کی توہین یا تنقید کرنے والے کو 15 سال تک قید ہوسکتی ہے۔

لیکن ایک تھائی ہیش ٹیگ 'ہمیں بادشاہ کی ضرورت کیوں ہے؟'  ٹوئٹر پر 24 گھنٹوں کے اندر 12 لاکھ بار شیئر ہوا۔ اس آن لائن تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب ایک سماجی کارکن نے یہ دعویٰ کیا کہ بادشاہ ایک ایسے وقت عیش و عشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں جب یہ وبا تھائی لینڈ میں پھیلتی ہی جارہی ہے۔

تھائی وزارت صحت نے ہفتے کے روز ملک میں 109 نئے کیسز کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ملک میں متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 1،245 ہوگئی تھی۔

فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایک سماجی کارکن سومسک جمتیراساکول نے فیس بک کی ایک ایسی پوسٹس شائع کی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ تھائی بادشاہ بوریت کے سبب مارچ کے اوائل سے ہی سوئٹزرلینڈ سے جرمنی کے مختلف مقامات کا سفر کر رہے ہیں۔

جیمتیراساکول جو تھائی لینڈ کی بادشاہت اور اس کی توہین کے قوانین کا ایک بڑے نقاد ہیں، نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا: 'بادشاہ تھائی عوام کو اس وائرس کے حوالے کر دیں گے۔ حتی کہ جرمنی بھی اس وائرس سے پریشان ہے لیکن انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دا ٹائمز کی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ تھائی بادشاہ فروری سے اپنے آبائی ملک میں عوامی طور پر سامنے نہیں آئے ہیں۔

تھائی لینڈ میں ان کے اقتدار کا آغاز ان کے والد بھومیبل کی موت کے بعد 2016 میں ہوا تھا۔ اگرچہ سخت قوانین کی وجہ سے بادشاہ کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اپنے والد کے برعکس انہیں عوام میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ ان کے والد 70 سال سے زیادہ عرصے تک بادشاہت کے مرتبے پر فائز رہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا