’کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بوری میں موت کا سامان ہے‘

علی احمد نے بتایا کہ جمعے کی صبح ہزار گنجی کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کے بعد وہ ادھر پہنچنے والے پہلے شخص تھے، انھوں نے دیکھا کہ ہر طرف تباہی مچی ہوئی ہے۔

خیراتی ادارے ایدھی کی ایمبولینس سروس کے بلوچستان میں انچارج علی احمد کے لیے دہشت گردی کے واقعات کے بعد لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانا معمول کی بات ہے لیکن ہزار گنجی واقعہ ان کے لیے اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی واقعہ ہے۔ 

علی احمد معمول کے مطابق جمعہ کے روز اپنے کام پر پہنچے ہی تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ ہزار گنجی میں دھماکہ ہو گیا ہے۔ اطلاع ملنے پر علی احمد نے عملے کو الرٹ کیا اور گاڑی نکال کر جائے وقوعہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ 

 یہ دھماکہ جمعے کی صبح سات بج کر 35 منٹ پر ہوا، ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکہ خیز مواد کسی بوری میں چھپایا گیا تھا۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہر صبح ایک کاروان کی صورت میں منڈی سے سبزی اور فروٹ خریدنے آتے ہیں اور ان کے ساتھ پولیس اور ایف سی کے اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ اس روز بھی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کل 55 افراد 11 گاڑیوں میں وہاں آئے جب دھماکہ ہو گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سبزی کی بوری میں سبزیوں کے بجائے موت کا سامان چھپا ہوا ہے۔ ’سبزی منڈی میں لوگ آلو کی خریداری کرنے کے لیے آئے تھے، مجھے تو اب سبزیوں سے بھی خوف آنے لگا ہے۔‘ 

علی احمد نے بتایا کہ ’میں وقوعہ پر پہنچنے والا پہلا شخص تھا میں نے دیکھا کہ دھماکے نے ہر طرف تباہی مچار رکھی تھی لوگ گاڑی اور زمین پر پڑے تھے جن میں سے کچھ پہلے ہی مرچکے تھے اور کچھ زخمی تھے، جو مدد کے لیے پکار رہے تھے اور کچھ درد سے کراہ رہے تھے۔‘

علی احمد اور ان جیسے دوسرے اہلکاروں کے لیے ایسے حادثات کے بعد اس مقام  پر حواس قابو رکھنا مشکل کام ہوتا ہے لیکن ان کے مطابق تسلسل سے دہشت گردی کے واقعات میں لاشیں اٹھاتے اٹھاتے اب وہ سیکھ گئے ہیں۔ وہ ایدھی کے نئے رضاکاروں کو بھی ایسی تربیت دیتے ہیں۔ 


ان کے مطابق: ’ہمارا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کریں تاکہ ان کی جان بچائی جا سکے اور اس کے بعد ہم ہلاک ہونے والے افراد کی میتیں ہسپتال منتقل کرتے ہیں۔‘

اپنے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ 2005 سے ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر والے ان کے بارے میں خوفزدہ رہتے ہیں اور انھیں اس ملازمت کو چھوڑنے کا بھی کہتے رہتے ہیں۔

’گھر والے کہتے رہتے ہیں کہ یہ کام چھوڑ دو۔ یہ کیسا کام ہے جس میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہونے کا ڈر رہتا ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ میں یہ کام خدمت کے جذبے سے کر رہا ہوں اسی لیے آج تک اسے چھوڑنا کا سوچا بھی نہیں۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا انھیں ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے اور خود کو محفوظ رکھنے کی کوئی تربیت دی گئی  ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایدھی فاؤنڈیشن اور کئی دیگر ایسے اداروں کی طرف سے ہمیں وقتاً فوقتاً تربیت دی جاتی ہے، اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ایسی صورتحال میں خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔

کوئٹہ میں ہونے والے اس خود کش حملے کے بعد فضا تاحال سوگ وار ہے اور ہزارہ برداری کے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

یہ احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس پر ہزارہ اکثریتی علاقے ہزارہ ٹاؤن کے رہائشیوں جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں نے دے رکھا۔

مزید پڑھیے: کوئٹہ دھماکہ: ہزارہ برادری کے آٹھ افراد سمیت 20 ہلاک

دھرنے کی قیادت کرنے والے طاہر ہزارہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہر بار حکومت ہمیں تسلیاں دیتی ہے۔ 

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طاہر ہزارہ نے بتایا کہ ’ہم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہمارا قصور کیا ہے ہمیں کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ہم تمام دروازوں پر دستک دے چکے ہیں اور مایوس ہوچکے ہیں ہماری سننے والا کوئی نہیں۔‘

گذشتہ ایک سال سے کوئٹہ میں امن کے باعث علی احمد اور ان جیسے دوسرے رضاکار خوش تھے کہ شہر کا امن دوبارہ لوٹ آیا اہے مگر اس واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کی طرح ان کے لیے بھی یہ پریشان کن بات ہے۔

دھرنے میں شریک انسانی حقوق کی کارکن اور ماہر قانون جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے خلاف ہزارہ کمیونٹی کے بوڑھے جوان اور خواتین اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں گو کہ انہیں کسی سے انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ 

جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ’ہزارہ برادری نے اتنے حادثات دیکھے ہیں کہ اب ہم تھک چکے ہیں کس سے فریاد کریں کہ ہمیں بھی انسانی حقوق دیے جائیں۔‘

یاد رہے کہ اس واقعے کے بعد صوبائی وزرا کے علاوہ خود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے متاثرین سے اظہار ہمدردی کے لیے ہزارہ ٹاؤن کی امام بارگاہ کا دورہ کیا تھا اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو یہ باور کرایا کہ حکومت ایسے واقعات کا تدارک کرے گی۔ 

بلوچستان میں گذشتہ 20 برس کے دوران فرقہ وارانہ واقعات میں اب تک ہزارہ برادری کے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات سے خوفزدہ ہوکر سینکڑوں لوگوں نے ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک کا رخ بھی کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان