’سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی فلڈ(Flood) ایپ میں ڈیٹا انٹری کے لیے ہم کمپیوٹر ٹیچروں کو پٹواریوں کے ساتھ لگا دیا گیا۔ اوپر سے ٹائیگر فورس والے بھی ہمیں پٹواری کے ساتھ لیے لیے پھرتے ہیں۔ سیلاب میں اگر کسی کا نقصان ہو تو وہ ہمیں ساتھ لے جا کر کہتے ہیں کہ تصویریں بنائیں اور متاثرین کو کہتے ہیں کہ دیکھیں میں نے حکومت سے آپ کو امداد لے کر دی ہے۔ ہمیں برا لگتا ہے کہ ہم سے ہی پڑھا ہوا بچہ ہماری انگلی پکڑ کر کہتا ہے کہ استاد جی ادھر آئیں، یہ کریں وہ کریں۔'
انڈپینڈنٹ اردو کو یہ داستان سنانے والے مہر اعجاز ہیں، جو ضلع خوشاب کی تحصیل نوشہرہ کے ہائی سکول کھوڑے میں چھٹی سے دسویں جماعت کو کمپیوٹر پڑھاتے ہیں۔
مہر گذشتہ 10 برس سے ٹیچر ہیں مگر وہ ناخوش ہیں کیونکہ ان کے مطابق انہیں رکھا تو کمپیوٹر پڑھانے کے لیے گیا ہے مگر کام ان سے کچھ اور ہی لیا جاتا ہے۔ 'حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ضلع خوشاب کافی متاثر ہوا۔ جب ضلعی انتظامیہ پر دباؤ بڑھا توانہوں نے سرکاری سکولوں سے اساتذہ طلب کر لیے۔
’ہم اپنے ضلعے کے ہر متاثرہ علاقے میں گئے، ہمیں پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے زیر نگرانی بننے والی ایپ ’فلڈ‘ (flood) بھرنے کے مقصد سے پٹواریوں کے ساتھ لگایا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا ’پٹواری کم ہیں اور اساتذہ زیادہ، جو سیلاب متاثرین کا ڈیٹا اکٹھا کر کے اس ایپ میں اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔ پہلے ہم نے تھوڑی مزاحمت کی کہ ہم توپہلے ہی کرونا وبا کی وجہ سے چھ ماہ بعد سکول آرہے ہیں مگر ضلعی انتظامیہ کے کہنے پر سکول والوں نے کہا ہمیں ہر حال میں یہ کام کرنا ہے۔‘
مہر کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کمپیوٹر ٹیچرز کو ڈیٹا انٹری کے کام میں لگا دیا گیا ہو۔ '2014 اور 15 میں بھی شدید بارشوں کے بعد انہوں نے یہی کام کیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سکول سے تھوڑا سا بھی لیٹ ہوں تو ہماری پوچھ گچھ شروع ہو جاتی ہے اور اب جب تقریباً ایک ماہ سے کمپیوٹر ٹیچر سکولوں سے غائب ہیں، اس کی کسی انتظامیہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب زدگان کی ڈیٹا انٹری دراصل پٹواریوں کا کام تھا لیکن ’ایپ میں ڈیٹا ہم بھر رہے ہیں جبکہ پٹواری ہاتھ سے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔‘
مہر نے اس سارے عمل سے ’بغاوت‘ کی اور چند روز ڈیٹا انٹری کرنے کے بعد واپس سکول میں معمول کی کلاسز لینی شروع کر دیں۔ 'میری غیر حاضری لگی ہے، یہ تو اب اس سارے ڈیٹا انٹری کے کام کے بعد معلوم ہو گا کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔'
ایک گرلز ہائی سکول میں کمپوٹر پڑھانے والی ٹوبہ ٹیک سنگھ کی نشیط اعجاز بتاتی ہیں کہ انہیں اپنی نوکری کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں۔ 'بہت سے ٹیچرز کی بھرتی 2007 میں کانٹریکٹ پر ہوئی تھی۔ بطور آئی ٹی ٹیچر کے ہمیں 17 واں سکیل دیا گیا۔ بعد ازاں 2009 میں جب ہمیں مستقل کیا گیا تو ہمارا سکیل ریورس کر کے 16 واں کردیا گیا حالانکہ باقی صوبوں میں مستقل ہونے والے اساتذہ کو 17ویں سکیل میں ہی مستقل کیا گیا۔'
انہوں نے بتایا کہ وہ سکول میں کلاسز کے علاوہ کلرکوں کا کام بھی کرتی ہیں کیونکہ وہ کمپیوٹر چلانا نہیں جانتے، سکول میں ایک استاد کمپیوٹر چلانا جانتا ہے تو اس پر ہر طرح کی ڈیٹا انٹری کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔
’کئی بار تو یوں ہوتا ہے کہ ڈیوٹی لگ جاتی ہے اور ہم چھ، چھ مہینے سکول کی شکل نہیں دیکھتے بلکہ ہمیں سرکاری دفاتر میں بلا لیا جاتا ہے۔ جب رزلٹ آتا ہے تو طعنےعلیحدہ کہ یہ خراب رزلٹ کمپیوٹر ٹیچر کا ہے۔‘
پنجاب گورنمنٹ سکول ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر ٹیچرز (پیکٹ) کے صوبائی صدر کاشف شہزاد چوہدری نے بتایا 'اس وقت پنجاب کے چھ ہزار سے زائد سرکاری ہائی سکولوں میں ایک، ایک کمپیوٹر ٹیچر ہے۔ یہ تناسب سٹوڈنٹ ٹیچر ریشو(STR) کے مطابق نہیں۔ آپ خود سوچیں جن سکولوں میں بچوں کی تعداد تین سے چار ہزار ہے وہاں ایک استاد کمپیوٹر کیسے پڑھا سکتا ہے؟
’عالمی معیار کے مطابق ایس ٹی آر23 طالب علموں پر ایک استاد اور پاکستان میں یہ ریشو پہلے 40 طلبا پر ایک استاد تھا مگر صوبائی وزیر تعلیم نے اسے 60 طلبا پر ایک ٹیچرکر دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاشف کہتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں کمپیوٹر کا مضمون 10 سال پہلے متعارف کروایا گیا۔ تب سے اب تک سکول کی جتنی ڈاک ہے وہ کلرک نہیں بناتا کمپیوٹر ٹیچر بناتا ہے۔ 'کمشنر آفس، ڈسٹرکٹ آفس کے کام ہوں، کمپیوٹر ٹیچر کو بلا لیتے ہیں۔ ڈی سی آفس میں کسی بھی قسم کی کوئی ڈیٹا انٹری ہوکمپیوٹر ٹیچر کو بلا لیا جاتا ہے۔'
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا اگر یہی سب کچھ کروانا ہے تو ہمیں لکھ کر دے دیں کہ بچوں کے رزلٹ کے ذمہ دار ہم نہیں ہوں گے۔ ’سیکریٹری ایجوکیشن نے بھی کئی مرتبہ لیٹر جاری کیے کہ کمپیوٹر ٹیچرز کو ڈیٹا انٹری پر نہ بھیجیں لیکن ضلعی انتظامیہ سنتی ہی نہیں۔ وہ زبردستی ڈیوٹیاں لگا دیتے ہیں اور جو مزاحمت یا انکار کرے اسے نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘
کاشف کہتے ہیں کہ سرکاری دفاتر کے علاوہ حکومت نے مختلف قسم کی ایپس بنا دی ہیں، جن میں ہیومن ریسورس ایپ ہے جس پر ٹیچرز کا ریکارڈ اپ لوڈ ہو رہا ہے۔ پھر سکول انفارمیشن سسٹم ایپ ہے جس پر بچوں کا ریکارڈ اپ لوڈ ہوتا ہے۔
’اسی طرح ایک ڈینگی کی ایپ ہے جس پر صبح اور شام ہم نے 20، 20 تصاویر بھیجنی ہیں یہ دکھانے کے لیے کہ سکول میں صفائی ہو رہی ہے یا نہیں۔ یہ سب کچھ کمپیوٹر ٹیچر کے ذمہ ہے اور جہاں کہیں کچھ مس ہو جائے تو کمپیوٹر ٹیچر کی انکوائری لگ جاتی ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں پڑھانے دیں، ڈاک کا کام کلرکوں سے کروائیں یا ڈیٹا انٹری کے لیے الگ ملازمین بھرتی کریں۔ کمپیوٹر ٹیچرز کے اس مسئلے پر ردعمل جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر برائے سکول ایجوکیشن مراد راس اور سیکریٹری سکول ایجوکیشن سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔