کیا ترکی اجرتی جنگجوؤں کو آذربائیجان منتقل کر رہا ہے؟

ترکی کی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دان محمد عبیداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ترک حکومت اجرتی جنگجوؤں کو آذربائیجان بھیجنے میں ملوث ہے۔

گذشتہ ہفتے روس کی وساطت سے اعلان کردہ پہلی جنگ بندی چند گھنٹوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکی تھی (اے ایف پی)

ترکی کی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دان محمد عبیداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ترک حکومت اجرتی جنگجوؤں کو آذربائیجان بھیجنے میں ملوث ہے لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی انتظامیہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جاری حالیہ تنازع میں آذربائیجان کی معاونت اور سپورٹ کے لیے اجرتی جنگجوؤں کو بھیجنے کی تردید کرتی رہی ہے۔

محمد عبید اللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ترک وزیر دفاع حلوصی آکار کا بیان اور ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کی خاتون رکن پارلیمنٹ کی جانب سے پوچھ گچھ کے مطالبے کا جواب نہ دینا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ترکی واقعتاً اجرتی جنگجوؤں کو آذربائیجان بھیجنے میں ملوث ہے۔ 

العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عبیداللہ نے کہا کہ ’وزیر دفاع حلوصی آکار نے چند روز قبل آرمینیا کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلا لے جس پر آکار کے بقول آرمینیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ترک وزیر دفاع نے باور کرایا کہ انقرہ حکومت آذربائیجان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسی طرح حالیہ جھڑپیں شروع ہونے کے بعد باکو کے دورے کے دوران آکار نے یہ بھی کہا تھا کہ آذربائیجان تنہا نہیں، ہم اس کی سپورٹ جاری رکھیں گے۔ یہ تمام امور اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ترکی اس مسئلے میں نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ عسکری طور پر بھی مداخلت کر رہا ہے۔‘ 

محمد عبید اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’کرد ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کی خاتون رکن پارلیمنٹ ساربل کمالبائی نے چند روز قبل درخواست پیش کی تھی کہ ترکی کی جانب سے اجرتی جنگجوؤں کو آذربائیجان بھیجنے سے متعلق دعوؤں کی حقیقت جاننے کے لیے پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کی بریفنگ منعقد کرائی جائے۔ ساربل نے مطالبہ کیا تھا کہ اس بات کے بارے میں حقیقت کا انکشاف کیا جائے کہ ترکی نے چار ہزار شامی اجرتی جنگجوؤں کو شمالی شام کے شہر عفرین سے آذربائیجان منتقل کیا۔ ان افراد کو ماہانہ 1800 ڈالر معاوضے پر بھرتی کیا گیا ہے اور ان کا مشن پورے تین ماہ جاری رہے گا۔‘ 

ترک سیاست دان محمد عبید اللہ کے مطابق خاتون رکن پارلیمنٹ نے بریفنگ کے مطالبے میں بین الاقوامی رپورٹوں کا سہارا لیا تھا جن کے مطابق آذربائیجان نے بیرقدار کمپنی سے ڈرون طیارے خریدے اور انہیں آرمینیائی فوج کے میزائلوں اور ٹینکوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔

ان کے مطابق اسی طرح خاتون رکن پارلیمنٹ نے شام کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد کے بیانات کا حوالہ دیا جن کے مطابق ترکی نے شام سے تین سو اجرتی جنگجوؤں کو نکال کر آذربائیجان بھیجا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حزب اختلاف کے رہنما محمد عبیداللہ کے مطابق ترکی کی حکومت نے ابھی تک بریفنگ کے مطالبے پر کوئی جواب نہیں دیا۔ 

محمد عبیداللہ کا کہنا ہے کہ ’ترکی سادات کمپنی کے زیر انتظام کئی ذیلی کمپنیوں کے ذریعے اجرتی جنگجوؤں کو منتقل کر رہا ہے۔ سادات کمپنی ترکی کی مسلح افواج کے مختلف یونٹوں سے تعلق رکھنے والے 23 ریٹائرڈ افسران کی جانب سے قائم کی گئی۔ ترکی کے صدر کے سکیورٹی مشیر بریگیڈیئر جنرل عدنان تانریفردی کی سربراہی میں کمپنی نے فروری 2012ٗ میں کام شروع کیا تھا۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ مذکورہ کمپنی لاجسٹک اور عسکری خدمات پیش کرتی ہے اور وہ اسلحہ منتقل کرنے کے علاوہ اجرتی جنگجوؤں کو تربیت بھی دے رہی ہے۔ اس کا مقصد جعلی پاسپورٹوں کا استعمال کرتے ہوئے جنگجوؤں کو جنگ زدہ علاقوں تک پہنچانا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اجرتی جنگجوؤں کو شام کے راستے لیبیا منتقل کرنے کے پیچھے بھی ’سادات‘ کمپنی کا ہاتھ رہا ہے اور اب جنگجوؤں کو آذربائیجان منتقل کیا جا رہا ہے۔ 

گذشتہ ہفتے روس کی وساطت سے اعلان کردہ پہلی جنگ بندی چند گھنٹوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکی تھی۔

اس سے قبل گذشتہ ماہ 27 ستمبر سے ناگورنو کاراباخ کے علاقے میں آرمینیا اور آذربائیجان کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ اس علاقے کی جانب سے آذربائیجان سے علیحدگی کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والوں کی اکثریت آرمینیائی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا