اتحادی رکن اسمبلی کا الزام، بلوچستان حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

صوبائی حکومت میں مبینہ کرپشن کے خلاف احتجاج کے طور پر نوٹوں سے بھرا بیگ وزیر اعلیٰ ہاؤس لے جانے والے اتحادی رکن اسمبلی گہرام بگٹی نے ایک بار پھر حکومت پر کرپشن کا الزام عائد کیا ہے۔

نوابزادہ گہرام بگٹی  رکن  صوبائی اسمبلی اور حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔(سکرین گریب)

صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے ایک مجمعے میں کھڑا ایک شخص حکومت پر کرپشن کے الزامات لگارہا ہے۔ وہ نہ صرف الزام لگارہا ہے بلکہ ملازمتوں کو فروخت کرنے اور معذوروں کا کوٹہ نہ ملنے کا شکوہ بھی کر رہا ہے۔ 

ان کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہیں، جو ان کی بات بڑی دلچسپی سے سن رہے ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور لوگ اسے نہ صرف شیئر کررہے ہیں بلکہ مختلف تبصرے بھی جاری ہیں۔ 

ویڈیو میں بولنے والے شخص نوابزادہ گہرام بگٹی رکن صوبائی اسمبلی اور حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ ان کا تعلق جمہوری وطن پارٹی سے ہے اور انہوں نے عام انتخابات میں پی بی 10 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگٹی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ 

اس مجمعے سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری نوکریوں میں معذور افراد کے لیے پانچ فیصد کا کوٹہ ہے، لیکن اس میں سے بھی انہیں کچھ نہیں ملا۔ 

معذور افراد کے لیے سیٹوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کوٹہ نہیں ملا کیونکہ یہاں صرف نوٹ چلا ہے، صرف نوٹ۔‘

ان سنگین الزامات کی ویڈیو کو بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی ٹوئٹر پر شیئر کیا اور ساتھ میں لکھا: ’یہ میں نہیں صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کے ایک اتحادی بول رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان میں اس وقت نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حکومت ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سابقہ ادوار کے مقابلے میں کرپشن کا خاتمہ کردیا ہے۔ 

تاہم موجودہ حکومت کے دور میں بھی ایک بڑا کرپشن کا کیس سامنے آیا، جس میں محکمہ صحت کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 

اس کیس کے بارے میں نیب کی  طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ نیب بلوچستان نے ایم ایس ڈی بلوچستان میں کتے کے کاٹنے کے علاج کے انجیکشن کی خریداری کے حوالے سے شکایات پر تحقیقات کا آغاز کیا تو انکشاف ہوا کہ بڑے پیمانے پر خورد برد کی گئی ہے۔ 

تحقیقات کے نتیجے میں مزید معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی بلوچ نے میڈیکل ٹیکنیشن اینڈ پروپرائیٹر علی عمر انٹر پرائزز، خالد بھٹی اور فقیر حسین کے ساتھ مل کر تقریباً 40 کروڑ سے زائد کی خطیر رقم اینٹی ریبیز انجیکشن خریداری کی مد میں وصول کرکے اپنی جیبوں میں ڈال لی جبکہ خریداری صرف کاغذوں میں دکھائی گئی۔ 

حکومت کے لیے مشکل؟

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت پر ان کے اتحادی کی طرف سے کرپشن کے الزامات سنجیدہ صورت حال کی نشاندہی ہے کیونکہ کسی عام فرد نے نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے یہ الزامات عائد کیے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ گہرام بگٹی نے اس سے قبل بھی صوبائی حکومت پر کرپشن کا الزام لگایا تھا۔ ’وہ نوٹوں سے بھرا بیگ لے کر وزیراعلیٰ ہاؤس گئے تھے کہ اگر حکومت نے آسامیاں فروخت ہی کرنی ہیں تو میں سب خرید لیتا ہوں۔‘

رشید کے بقول: ’حالیہ وائرل ویڈیو میں بھی وہ آسامیاں فروخت کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ ان کے پہلے الزام پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو وہ اس بات کو بھرے مجمعے میں لوگوں کے سامنے دہرا رہے ہیں۔‘

رشید بلوچ نے بتایا کہ کرپشن کے کیسز سابقہ حکومت کے دور میں سامنے آئے، جب وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ پر میگا کرپشن کا کیس سامنے آیا اورسیکرٹری خزانہ کے گھر کی ٹینکی سے نوٹ برآمد کیے گئے۔ 

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کرپشن کا الزام لگنا الگ بات ہے، لیکن اگر یہ الزام کوئی معزز رکن اسمبلی لگا رہا ہے تو یہ انتہائی سنجیدہ صورت حال اور اس کا سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ 

رشید بلوچ کہتے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو دیکھیں تو ہمیں کوئی میگا پروجیکٹ نہیں ملے گا جبکہ دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی حکومت کے خلاف آیا ہے۔ 

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اگر اس معاملے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی تو اس سے بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی، جس کے منفی اثرات حکومت پر مرتب ہوسکتے ہیں۔‘

بلوچستان میں حکومت کے خلاف کوئی مضبوط اپوزیشن موجود نہیں جو ایسے معاملات میں اس کے لیے کوئی چیلنج بن سکے۔ رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اپوزیشن ہوتی تو یہ معاملہ اسمبلی میں انتہائی موثر طریقے سے اٹھایا جاتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرف سے خاموشی ہے۔ 

یاد رہے کہ بلوچستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا جلسہ 25 اکتوبر کو ہونے جارہا ہے جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ 

رشید نے اس معاملے کو صوبائی حکومت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ معاملہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلسے میں اٹھایا جاتا ہے تو یہ ایک مشکل صورت حال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ 

یاد رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل میں دو جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف بلوچستان میں اپوزیشن میں ہیں۔ 

دوسری جانب ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے رکن صوبائی اسمبلی گہرم بگٹی کے احتجاج کا نوٹس لے لیا ہے۔ 

ترجمان کے مطابق: ’وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر اس بابت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا پختہ عزم ہے کہ ملازمتوں میں تعیناتی میرٹ پر کی جائے گی اور ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ صوبے کی پائیدار ترقی کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اور معیاری تکمیل ضروری ہے۔ 

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت کا رد عمل جاننے کی کوشش کی اور صوبائی ترجمان سے رابطہ کرکے موقف لینا چاہا لیکن انہوں نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان