کیا بلوچستان حکومت کے تحفظات وفاق کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے؟

وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاقی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے لیکن ان کی جماعت کے اراکین کی اٹھنے والی کمزور مگر پراثر آوازیں اتحاد ٹوٹنے کی جانب واضح اشارہ ہوسکتی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اور ووزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے درمیان ملاقات کی ایک تصویر (بشکریہ اے پی پی )

پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان دنوں معاشی اور کرونا (کورونا) وبا کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی بحران سے بھی دوچار ہے۔

اس بار وفاقی حکومت کے لیے بلوچستان کی دو اتحادی جماعتیں دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) تو حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوچکی ہے جبکہ دوسری جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بعض اراکین وفاق کی جانب سے بلوچستان کو حقوق کی عدم فراہمی کو وجہ بناتے ہوئے حکومت کو مشکل وقت دینے کے لیے تیار ہیں۔

گوکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے حکومتی اتحاد چھوڑنے کی خبروں کی تردید کی ہے تاہم ان کی جماعت کے ایک سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے گذشتہ روز ایوان بالا میں ایک تند وتیز تقریر کے دوران کہا کہ 'ہم حکومت سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا حق چاہتے ہیں جو ہمارے وسائل ہیں وہ دیے جائیں۔'

 کاکڑ نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں 30 ارب روپے کا کٹ لگا کر ہمیں 10 ارب روپے دیے ہیں، جس سے پاکستان کے 44 فیصد حصے کو کیسے ترقی دی جائے؟ 

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ روز اول سے ہی پاکستان میں وفاق چھوٹی اکائیوں کے حقوق غصب کررہا ہے، اس میں سب سے زیادہ حق بلوچستان کا مارا گیا، جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ پلاننگ کمیشن کے اجلاس میں خود بلوچستان کے وزیراعلیٰ تک  کواعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

بلوچستان کے سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی، تجزیہ نگار اور ڈان نیوز کے بیورو چیف سید علی شاہ کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اختلافات موجود ہیں جس کا واضح ثبوت پلاننگ کمیشن کے اجلاس سے وزیراعلیٰ جام کمال کا بائیکاٹ کرنا ہے۔

واضح رہے کہ جام کمال نے اس سے قبل  بلوچستان میں برفباری کے دوران وفاقی محکموں کی طرف سے نظر انداز کرنے پر شکوہ کیا تھا کہ 'وفاق نے ثابت کردیا کہ بلوچستان کبھی بھی اس کی دلچسپی کا مرکز نہیں رہا۔'

بلوچستان عوامی پارٹی کے قومی اسمبلی میں پانچ ارکان اور دو سینیٹرز ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سید علی شاہ کے بقول: 'بجٹ میں بلوچستان کے منصوبوں کو نظر انداز کیا گیا جو صوبے کی احساس محرومی میں مزید اضافے کا باعث ہوسکتا ہے ۔ اس بجٹ میں بلوچستان میں غربت، بھوک افلاس اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوئی میگا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا۔'

وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک بار پھر اس بات کواپنے ایک سرکاری بیان میں  دہرایا ہے کہ 'وفاقی پی ایس ڈی پر ہمارے تحفظات ہیں جن کو وزیراعظم عمران خان تک بھی پہنچایا گیا ہے تاہم ہم نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔'

ادھر انوار الحق کاکڑ سمجھتے ہیں کہ پلاننگ کمیشن کے لیے کم وقت دینا اور منصوبے شامل نہ کرنے کو وہ صوبے کے ساتھ مذاق کے مترادف سمجھتے ہیں۔ 'پلاننگ کمیشن کے ذریعے ہم اپنے فنانشنل پروجیکٹ کو ترتیب دیتے ہیں، معیشت میں اضافے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جو نہ ہوسکا۔' 

انوار الحق کاکڑ کے مطابق: 'این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے جاوید جبار بہتر نمائندگی کرسکتے تھے لیکن منفی نکتہ چینی سے ہم نے یہ موقع ضائع کردیا۔'

ان کا ماننا ہے کہ صوبے کےمسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین ذہنوں کی ضرورت ہے۔ 'امریکہ اگر آج سپر ہاور ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس بہترین دماغ موجود ہیں، لیکن اس بات کو ہم نہیں سمجھتے۔'

انہوں نے کہا کہ 'پلاننگ کمیشن میں نظر انداز کرنے کے حوالے سے ہم نے اپنے تحفظات لیڈر آف ہاؤس ڈاکٹر شہزاد وسیم کو بتائے جنہوں نے یہ تحفظات وزیراعظم تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خود بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بعض اراکین وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کے حامی ہیں، گوکہ جماعت کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاقی حکومت سے اتحاد ختم کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے لیکن ان کی جماعت کے اراکین کی اٹھنے والی کمزور مگر پراثر آوازیں  اتحاد ٹوٹنے کی جانب واضح اشارہ ہوسکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان