یہ کہانی 28 فروری 2024 سے شروع ہوتی ہے جب الکوزی خاندان کے چار بھائیوں کے پشاور کے علاقے حیات آباد میں واقع اپنے گھر سے رات کو تقریباً دو بجے نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کے بعد خاندان کے افراد نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے مغویوں کو بازیاب کرانے کی استدعا کی تھی۔
لیکن وہ درخواست واپس لے لی گئی اور حال ہی میں ایک اور درخواست دائر کی گئی کہ مغوی ہنوز بازیاب نہیں ہوئے۔
الکوزی خاندان کی حالیہ عدالتی درخواست میں لکھا گیا ہے کہ عدالت میں پہلی درخواست جمع کرانے کے چند مہینے گزرنے کے بعد مغویوں کے خاندان کو اغواکاروں کی جانب سے بتایا گیا کہ عدالت سے درخواست واپس لی جائے اور اس کے بدلے مغویوں کو چھوڑ دیا جائے گا۔
اسی وجہ سے مغویوں کے خاندان نے عدالت سے درخواست واپس لے لی لیکن اس کے باوجود بھی ان کو نہیں چھوڑا گیا اور اسی بنا پر عدالت میں دوسری درخواست دائر کی گئی اور عدالت کو بتایا گیا کہ تقریباً 13 مہینے گزر گئے لیکن ان کے خاندان کے افراد بازیاب نہیں کرائے گئے۔
مغویوں کے حوالے سے 2024 میں صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں بتایا گیا تھا کہ اغوا شدہ افراد صوبے کے کسی بھی انٹرمنٹ سنٹر یا جیل میں موجود نہیں ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے بھی عدالت میں جمع بیان میں بتایا گیا ہے کہ اغوا شدہ افراد کسی بھی وفاقی حکومت کے ادارے کی تحویل میں نہیں ہیں۔
مغویوں کو جس وقت اغوا کیا جا رہا تھا، اس وقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج ریکارڈ کی گئی ہے اور عدالتی درخواست کے مطابق سی سی ٹی وی کو چہروں کی پہچان کے لیے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) بھیجا گیا تھا۔
نادرا کی جانب سے اس مقدمے میں عدالت میں جمع بیان میں بتایا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی میں موجود چہروں کی پہچان ممکن نہیں ہو سکی کیونکہ تصاویر میں چہروں پر فیشل فیچرز (تاکہ ڈیٹیکٹ نہ ہو سکے) چھپائے گئے ہیں۔
جے آئی ٹی کا قیام
اسی مقدمے کی تفتیش کے لیے عدالتی حکم پر گذشتہ سال جولائی میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی تاکہ کیس کی درست انداز میں تفتیش ہو سکے۔
اس جے آئی ٹی کی سربراہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سپیشل برانچ کر رہے تھے، جنہوں نے تفتیش کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ہے۔
عدالت میں جے آئی ٹی کی جانب سے جمع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی آخری نشست میں مغویوں کی بیویوں کو جے آئی ٹی کے سامنے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن کوئی بھی نہیں آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق الکوزی خاندان کے ایک فرد واحد الکوزی، جو الکوزی گروپ آف کمپنیز کے مالک عبدالرحمن الکوزی کے چھوٹے بھائی ہیں، جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔
واحد الکوزی نے افغان پاسپورٹ پر برطانوی شہریت حاصل کی ہے اور برطانیہ میں رہتے ہیں اور وقوعہ کے دنوں میں پشاور آئے ہوئے تھے لیکن وقوعہ کے دن اسلام آباد میں تھے۔
واحد الکوزی نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ الکوزی خاندان کے درمیان جائیداد اور کاروبار کی ملکیت پر تنازعہ چل رہا ہے۔
واحد الکوزی نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ الکوزی گروپ آف کمپنیز ان کے بڑے بھائی عبدالرحمن الکوزی کے نام پر ہے، جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔
واحد الکوزی نے اپنے بیان میں الزام لگایا ہے کہ ’عبدالرحمن الکوزی نے خاندان کے جوائنٹ کاروبار کو ہڑپ کر کے متحدہ عرب امارات اور افغانستان میں تمام جائیدادیں اپنے نام کر لی ہیں۔‘
واحد الکوزی نے مزید جے آئی ٹی کو بتایا کہ ان کے قبیلے کا شک ہے کہ ’چار مغویوں کے اغوا میں عبدالرحمن الکوزی کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔‘
جے آئی ٹی نے عدالت میں جمع رپورٹ میں بتایا ہے کہ تفتیش سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ الکوزی خاندان کے چار بھائیوں کے اغوا میں الکوزی گروپ کے مالک عبدالرحمن الکوزی کا ملوث ہونا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ خاندان کے مابین کاروباری تنازعے چل رہے ہیں۔
عدالت میں مغویوں کے خاندان کی جانب سے گذشتہ سال عدالت میں جمع درخواست میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی میں ایک شخص، جو پاکستان میں عبدالرحمن الکوزی کے لیے پاور آف اٹارنی کے طور پر کام کرتا ہے، بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ چار بھائیوں کے اغوا میں عبدالرحمن الکوزی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہو سکتا ہے۔ تاہم درخواست گزار کے پاس اس کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔
الکوزی خاندان اور پاکستانی شہریت کا تنازع
الکوزی خاندان کی پاکستانی شہریت کا معاملہ 2012 میں سامنے آیا تھا اور اس وقت میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ امور میں اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔
انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں 2016 میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق الکوزی خاندان پر الزام تھا کہ انہوں نے جعلی طریقے سے پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے تھے۔
تاہم حالیہ عدالتی درخواست، جو پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے، کے مطابق 2017 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں الکوزی خاندان کے افراد نادرا کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
اس کے بعد عدالتی درخواست کے مطابق 2017 میں نادرا نے الکوزی خاندان کے شناختی کارڈز درست قرار دیے تھے اور انہیں پاکستانی شہری تسلیم کیا تھا۔
تاہم اب دوبارہ یہی تنازع کھڑا ہوا ہے اور نادرا کی جانب سے الکوزی خاندان کے چار بھائیوں کے اغوا کے چند مہینے بعد الکوزی خاندان کے شناختی کارڈز بلاک کیے گئے تھے۔
عدالتی درخواست کے مطابق اسی تنازعے کی وجہ سے رواں ماہ 23 اپریل کو الکوزی خاندان کے 19 افراد کو افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔
الکوزی خاندان کے وکیل معظم بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود الکوزی خاندان کے شناختی کارڈز بلاک کیے گئے اور خاندان کے کچھ افراد کو افغانستان ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ الکوزی خاندان کے افراد کو stateless بنایا جا رہا ہے جبکہ نادرا نے اس سے پہلے ان کی شہریت تسلیم کی ہے، لیکن اب دوبارہ انہیں افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔
الکوزی خاندان کون ہے؟
الکوزی خاندان افغانستان پر حکمرانی کرنے والے مشہور قبیلے درانی کی ایک شاخ ہے جو افغانستان کے قندھار کے قریب انغرداب میں زیادہ آباد ہے۔
امریکہ کے غیر سرکاری ادارے Tribal Analysis Center کی الکوزی قبیلے پر لکھی گئی ایک تحقیق کے مطابق، انغرداب وادی الکوزی خاندان کو اس وقت کے افغان حکمران نادر شاہ کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی۔
یہ تب ہوا تھا جب 1732 میں الکوزی قبیلے کے عبدالغنی نے اس وقت ہرات میں فارس کی صفوی سلطنت کو شکست دے کر ہرات کو فارس سے آزاد کیا اور 1856 تک ہرات پر حکمرانی کی۔
اس کے بعد درانی قبیلے کی دیگر شاخوں اور الکوزی کے مابین اختلافات بڑھ گئے اور درانی قبیلے کی ایک اور شاخ سدوزئی قبیلے نے الکوزی کو ہرات سے نکالا، اور 1880 تک درانی قبیلے کی شاخوں کے مابین پرتشدد واقعات ہوتے رہے۔
الکوزی قبیلے کے ملا نقیب سویت یونین کے خلاف جنگ میں جماعت اسلامی کے اہم رہنما تھے جو سویت یونین کے خلاف لڑے، جبکہ Tribal Analysis Center کی تحقیق کے مطابق الکوزی خاندان نے 2004 کے انتخابات میں درانی قبیلے کے حامد کرزئی کے مقابلے میں تاجک یونس قانونی کی حمایت کی تھی۔
الکوزی خاندان کی خیبر پختونخوا مہمند میں رہائش
الکوزی خاندان کے افراد خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند میں آباد ہیں اور ابھی حالیہ شہریت کے تنازعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔
الکوزی خاندان کے وکیل معظم بٹ کے مطابق الکوزی خاندان کے افراد کو کہا جا رہا ہے کہ مہمند میں وہ جس علاقے میں آباد ہیں، وہ پاکستان کی حدود میں نہیں بلکہ افغانستان کی حدود میں ہے۔
معظم بٹ نے بتایا، ’سپریم کورٹ کا اس حوالے سے ایک فیصلہ موجود ہے کہ الکوزی مہمند کے جن علاقوں میں آباد ہیں، وہ پاکستان کی حدود میں ہیں اور افغانستان کا حصہ نہیں ہیں۔‘
ہیومنٹی پبلیکیشن نامی جریدے کے مطابق 2003 سے قبل دیگر قبائلی اضلاع کے برعکس، افغانستان کی سرحد مہمند میں قدرے مختلف ہے کیونکہ مہمند میں پاکستان کی طرف سے حدود متعین کرنے کے لیے روس کا بارڈر نقشہ استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ افغانستان کی جانب سے برطانوی نقشے کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی جریدے میں شائع ایک مضمون کے مطابق مہمند قبیلہ سرحد کے دونوں طرف آباد ہے اور تقریباً 40 فیصد مہمند قبیلے کے لوگ افغانستان کے ننگرہار صوبے کے گوشتہ، مہمند درہ اور لال پورہ میں آباد ہیں۔
الکوزی خاندان کو ڈی پورٹ کرنے اور ان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کے حوالے سے نادرا کے اس مقدمے میں ایک نمائندے نے انڈپینڈنٹ اردو کو (مقدمہ زیر سماعت ہونے کی وجہ سے) نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے ان کے خاندان کے افراد کی ٹریول ہسٹری چیک کی ہے اور انہوں نے افغان پاسپورٹ پر افغانستان کا سفر کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جہاں الکوزی خاندان کے لوگ رہتے ہیں، وہاں کے مقامی ضلعی کمیٹی سے تصدیق کرائی گئی تھی، لیکن بعد میں اسی کمیٹی نے وہ تصدیق واپس لے لی تھی اور بتایا تھا کہ یہ پاکستانی شہری نہیں ہیں۔
نمائندے نے بتایا، ’اب یہ مقدمہ عدالت میں ہے کیونکہ الکوزی خاندان نے پشاور ہائی کورٹ میں ڈی پورٹ کرنے کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔‘
آج پشاور ہائی کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت تھی لیکن ایک فریق کے وکلا نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی سفارش کی، جس کی بنا پر سماعت ملتوی کی گئی۔
الکوزی خاندان کے وکیل معظم بٹ کے مطابق نادرا بطور ادارہ کسی کی شہریت ختم نہیں کر سکتی کیونکہ شہریت ختم کرنا وزارت داخلہ کے اختیار میں ہے۔