احمدی ہونے کا الزام: گارڈ نے بینک مینیجر کو قتل کر دیا

پنجاب کے ضلع خوشاب میں ایک بینک کے برانچ مینیجر کو سکیورٹی گارڈ نے یہ الزام لگا کر گولی مار دی کہ وہ احمدی ہیں اور مذہبی جذبات مجروح کرتے تھے۔

مقامی تھانے  کے ایس ایچ او ارشد عباس نے بتایا کہ تفتیش جاری ہے اور جائے وقوعہ سے شواہد اور بینک عملے کے بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں(فائل تصویر: اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے علاقے قائد آباد میں ایک بینک کے برانچ مینیجر کو سکیورٹی گارڈ نے بدھ کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا، جنہیں علاج کے لیے لاہور منتقل کیا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو گئے۔

ان کی نماز جنازہ جمعرات کو ادا کی گئی جس میں مقامی علمائے کرام کے علاوہ سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

پولیس کے مطابق سکیورٹی گارڈ نے گولی مارنے کے بعد الزام عائد کیا کہ برانچ مینیجر احمدی فرقے سے تھے، جس کی بنا پر انہوں نے ان پر فائرنگ کی۔ ملزم سکیورٹی گارڈ پولیس تھانہ قائد آباد کی حراست میں ہیں، جن سے تفتیش جاری ہے۔ 

بینک کی جس برانچ میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کام کرنے والے ایک ملازم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'یہ الزام غلط ہے کہ بینک مینیجر احمدی فرقے سے ہیں کیونکہ وہ کئی سالوں سے ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔'

ملازم کے مطابق: 'برانچ مینیجر نے کبھی مذہبی یا مسلک سے متعلق کوئی بحث کی اور نہ ہی کسی کو قائل کرنے کی کوشش کی۔'

جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر گارڈ نے گولی کیوں ماری؟ تو انہوں نے کہا: 'ہوسکتا ہے دونوں میں کوئی ذاتی رنجش ہو لیکن اس بارے میں انہیں معلوم نہیں، جہاں تک برانچ مینیجر کے رویے کی بات ہے تو وہ بھی مناسب ہے لہٰذا یہ سمجھنا کہ کوئی بدتمیزی وغیرہ کی ہو گی وہ بھی درست نہیں۔'

انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ گارڈ صبح کے وقت سکیورٹی پر تعینات تھے کہ ساڑھے نوبجے کے قریب اچانک گولی چلنے کی آواز آئی جس کے بعد برانچ میں بھگدڑ مچ گئی۔ ’ہم نے دیکھا کہ گولی مینیجر کو لگی ہے اور گارڈ نے وہاں موجود عملے اور لوگوں کو چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ مینیجر صاحب احمدی فرقے سے ہیں اور وہ مبینہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کرنے والی باتیں کرتے رہتے تھے، لہٰذا انہوں نے غصے میں آ کر انہیں گولی مار دی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برانچ ملازم کے مطابق وہاں موجود عملے نے پولیس کو فون کردیا، کچھ دیر بعد پولیس وہاں پہنچی اور گارڈ کو حراست میں لے کر جانے لگی تو انہوں نے پھر نعرے بازی شروع کر دی، یہ دیکھ کر بینک کے باہر جمع ہونے والے لوگوں نے بھی ان کے ساتھ نعرے لگانا شروع کردیے۔

برانچ ملازم نے کہا کہ سکیورٹی گارڈ کے چہرے پر کوئی پشیمانی دکھائی نہیں دے رہی تھی اور وہ فرار بھی نہیں ہوئے۔ دوسری جانب مقامی تھانے قائد آباد کے ایس ایچ او ارشد عباس نے بتایا کہ تفتیش جاری ہے اور جائے وقوعہ سے شواہد اور بینک عملے کے بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔

ان سے جب واقعے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ملزم ابتدائی طور پر یہی کہ رہے ہیں کہ انہوں نے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر بینک مینیجر کو گولی ماری لیکن چھان بین کے بعد ہی حقیقت سامنے آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'مذہبی جذبات سے متعلق کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، یہ ایک قاتلانہ حملہ ہے اور اس کیس میں قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی ہوگی۔' اس واقعے پر سوشل میڈیا صارفین میں بھی بحث جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان