پنجاب: تین ہفتوں میں ریکارڈ دو لاکھ مقدمات نمٹ گئے

سابق سیکرٹری لاہور بار ایسوسی ایشن ایڈووکیٹ فرحان مصطفیٰ نے تیز رفتاری سے مقدمات نمٹانے کو سرہاتے ہوئے سوال کیا ہے کہ آیا ضلعی عدالتیں آئندہ اس رفتار کو برقرار رکھ پائیں گی؟

(پکسابے)

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے بعد پنجاب کی ضلعی عدالتوں نے تین ہفتے کے مختصر عرصے میں تقریباً ریکارڈ دو لاکھ کے قریب مقدمے بھگتا دیے۔  

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کی منظوری کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری لاہور ہائی کورٹ نے 12 اکتوبر کو صوبے بھر کی عدالتوں کو ہدایات نامہ جاری کیا، جس کے بعد 31 اکتوبر تک صوبے بھر کی سول عدالتوں میں ایک لاکھ 47 ہزار595 جبکہ سیشن عدالتوں میں 50 ہزار 418 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے۔ 

ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ تین ہفتوں میں لاہور کی سول عدالتوں میں 20 ہزار 806 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے جن میں سے نو ہزار کے قریب دیوانی مقدمات تھے۔ 

لاہور کی سیشن عدالتوں میں چھ ہزار669 سیشن مقدمات نمٹائے گئے جن میں سے 50 مقدمات قتل کے تھے۔ فیصل آباد کی سول و سیشن عدالتوں میں 14 ہزار 366 مقدمات، مظفرگڑھ میں چھ ہزار 654 جبکہ گوجرانوالہ میں آٹھ ہزار 673 مقدمات کے فیصلے ہوئے۔

اسی عرصے میں ملتان کی سول اور سیشن عدالتوں میں 10 ہزار 399، راولپنڈی میں 10 ہزار 158، شیخوپورہ میں پانچ ہزار 56، بہاولپور میں پانچ ہزار903 اور رحیم یار خان کی سول و سیشن عدالتوں میں پانچ ہزار 927 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے۔ 

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے تمام اضلاع کی بہترین کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ سائلین کو عدالتوں میں ہر ممکن سہولیات سمیت جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے۔ 

اتنے کم عرصے میں دو لاکھ کے قریب مقدمات کے فیصلوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری لاہور بار ایسو سی ایشن ایڈووکیٹ فرحان مصطفیٰ جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'مجھے یقین ہے کہ ان دو لاکھ کے قریب مقدمات میں زیادہ تر مقدمات وراثتی، خاندانی اور چھوٹے موٹے جھگڑوں سے متعلق ہوں گے لیکن یہ ایک اچھا شگن ہے کہ عدالتوں نے ایک بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلے اتنے کم عرصے میں کیے۔ مگر ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ فیصلے کتنے عرصے سے التوا کا شکار تھے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ضلعی عدالتیں آئندہ اس رفتار کو برقرار رکھ پائیں گی؟'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرحان کا کہنا تھا کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں منصف حضرات فیصلہ دینے سے کتراتے ہیں، ایسے کیسسز جن میں فریقین اپنا اپنا زور لگاتے ہیں ہمیشہ تعطل کا شکار رہتے ہیں۔ 'انصاف کی دیر سے فراہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر ججوں کے تبادلے کر دیے جاتے ہیں اور نئے آنے والے جج حضرات کیس کو نئے سرے سے دیکھتے ہیں اور کیس کا فیصلہ لٹک جاتا ہے۔'  

ایڈووکیٹ فرحان نے ایک اور مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا: 'یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ضلعی عدالتوں میں فوجداری مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کو دیوانی عدالتوں میں تعینات کر دیا جاتا ہے اور سول مقدمات میں تجربہ رکھنے والے ججوں کو فوجداری عدالتوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر جج کیسسز کو لٹکا دیتے ہیں۔'

ان کا کہنا ہے: 'بار ایسوسی ایشن نے وزارت قانون و انصاف کو سفارشات کیں تھیں کہ پہلے سے کام کرنے والے اور نئے ججز سے ان کی ترجیحات پوچھی جائیں کہ وہ فوجداری، دیوانی یا فیملی کورٹس میں کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کو ان کی ترجیحات کے مطابق عدالتوں میں تعینات کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عدالتوں کے ججوں کی کپیسٹی بلڈنگ کے لیے ریفریشل کورسسز بھی سالانہ بنیادوں پر متعارف کروانے چاہیے۔' 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان