پی ٹی آئی کے حقیقی چہرے میڈیا سے دور پردے کے پیچھے کام کرتے ہیں

مفتاح مروت لکھتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے ایک دیرینہ ساتھی کے ذریعے ضرورت پڑنے پر عام انتخابات کی تیاری کے لیے خاموشی سے زمین ہموار کر لی۔

پاکستان تحریک انصاف  نے  چھوٹے کارکنوں کو ان کی مالی حیثیت کو خاطر میں لائے بغیر عہدے دیے(اے ایف پی)

2013 اور 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور بانی عمران خان نے اپنی جماعت میں صاف اور ایمان دار لوگوں کو سامنے لانے کا ایجنڈا پیش کیا تھا۔

پارٹی منشور میں شامل یہ نعرہ جلد ہی عوام میں مقبول ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اسے پاکستان کی بوسیدہ اور گھٹن زدہ سیاست میں تازہ ہوا کے جھونکے کے طور پر دیکھا گیا۔ 

تاہم اقتدار میں آنے کے بعد قومی میڈیا نے بارہا عمران خان پر ماضی کی مختلف جماعتوں سے وابستہ پرانے چہروں کو اہم عوامی عہدوں پر فائز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسے نئی بوتل میں پرانی شراب کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اگرچہ وفاقی کابینہ اور دیگر اہم عہدوں پر براجمان چہروں کو دیکھ کر اس بیانیے کی سچائی پر یقین کیا جا سکتا ہے لیکن پارٹی کے اندر خاموشی سے بھر پور تبدیلی جاری ہے۔ 

اس تبدیلی کی قیادت عمران خان کے پرانے معتمد خاص اور طویل عرصے سے ان کا ساتھ نبھانے والے سیف اللہ خان نیازی کے ہاتھ میں ہے، جو پردوں کے پیچھے کام کرنے کے عادی ہیں۔ پارٹی کی تنظیم نو جاری ہے اور اس کام کے ساتھ مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ 

پارٹی کے برے وقت میں سیف اللہ خان ہمیشہ ہی عمران خان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اسی طرح 2014 کے ملک گیر مظاہرے کے دوران، جب اس جماعت کی مقبولیت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، اس وقت بھی وہ پارٹی کے مرکزی منتظم تھے۔ جماعت کی داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے وہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل سیاست سے کنارہ کر چکے تھے، بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ چھٹیوں پر تھے۔ 

دوسرے الفاظ میں پارٹی کا مشکل دور اور اپوزیشن کی سیاست کا پہلا مرحلہ، جس کی وجہ سے یہ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول پارٹی بن گئی تھی، اختتام کو پہنچا تھا۔ جماعت کا دوسرا مرحلہ اب اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ یہ 2019 کی بات ہے جب دیگر جماعتوں سے توڑ کر لائے گئے افراد کے پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد قیادت سے ناراض پارٹی کارکنوں نے محسوس کیا کہ ان کو یکدم نظرانداز اور سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔

یہ عمران خان کے پارٹی کیڈر کو آگے لانے کے نظریے سے برعکس قدم تھا۔ ایسے میں ایک ماسٹر سٹروک کھیلتے ہوئے سیف اللہ خان نیازی کو پارٹی کے چیف آرگنائزر (سی او) کے طور پر مقرر کیا گیا۔ پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے اقتدار کے مزے لوٹنے جانے کے باوجود، انہیں پارٹی کی نچلی سطح سے تنظیم نو کا مینڈیٹ دیا گیا۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان نے سیف اللہ خان کو میرٹ کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کی۔ جماعت کی تنظیم نو کے پہلے مرحلے میں پارٹی کنونشن کے ذریعے نیا آئین تشکیل دیا گیا۔ یہ آئینی دستاویز متعدد پہلوؤں کے باعث انقلابی دکھائی دیتی ہے جو چار سالوں کی عرق ریزی اور غور و فکر کے بعد تیار کی گئی۔

پارٹی میں اب ایک عبوری سیٹ اپ تشکیل دیا گیا ہے جو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ داخلی انتخابات 2013 میں ہونے والے انتخابات سے کہیں زیادہ ویسع ہوں گے۔ اس عبوری سیٹ اپ میں بہت سارے پرانے اور نظریاتی کارکنوں کو نہ صرف پارٹی ڈھانچے میں بلکہ گڈ گورننس میکانز بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کو بااختیار بنا کر حکومت کے بہت سے اہم اقدامات کی نگرانی کی جا سکے۔ 

تاہم سیف اللہ خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج جماعت کے پرانے کارکنوں اور رہنماؤں کو پارٹی میں واپس لانا تھا، جن میں سے عمران خان کے بہت سے حامی نظرانداز ہونے یا تبدیلی لانے کے لیے اختیار نہ ملنے کی رنجش کے باعث پارٹی سے لاتعلق ہو گئے تھے جس کی وجہ سے پارٹی کی سرگرمیوں میں کمی اور اس کے ایونٹس میں بہت سے لوگوں نے شامل ہونا چھوڑ دیا تھا۔  

اس تبدیلی کو اوپر سے نچلی سطح تک لاگو کرنے کی ضرورت تھی جس کے تحت پارٹی کے نظریاتی افراد کی تقریری اور پرانے کارکنوں کی نچلی سطح پر سیاست میں شرکت کو یقینی بنایا ہے۔ سیف اللہ خان نے بڑی ذہانت سے اس حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اقتدار کے خواہش مند لوگوں کی بجائے پارٹی کے منشور اور اس کے تبدیلی کے ایجنڈے سے وفادار کارکنوں کو جماعت میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔  

علی اصغر خان، شیر علی ارباب، اعجاز چوہدری، صداقت عباسی اور ایسے بہت سے دوسرے وفادار پارٹی کارکنوں کی اپنے اپنے علاقوں میں پارٹی کی قیادت سونپنے جیسے اقدامات نے جماعت میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اعجاز چوہدری نے فروری میں مینار پاکستان کے سبزہ زار پر ایک عظیم الشان جلسے میں 11 ہزار آفس ہولڈرز سے حلف لیا تھا۔ ’یہ تنظیمیں حکومت اور عوام کے مابین ایک پل کا کام کریں گی۔‘

 یہ بڑی بات ہے کہ تحریک انصاف کے علاقائی صدور نے پارٹی کے چھوٹے کارکنوں کو ان کی مالی حیثیت کو خاطر میں لائے بغیر عہدے دیے۔ سب سے پہلے خیبرپختونخوا کے جنوبی ریجن میں ویلیج کونسل سطح کے عہدے دار مقرر کیے گئے۔ ریجن کے صدر شہبازگل شنواری نے بتایا کہ 'صرف مرکزی پارٹی میں چھ ہزار سے زیادہ عہدے داروں کا تعلق جنوبی علاقے سے تھا۔ دیہات کی سطح پر پارٹی ونگز کی تشکیل مکمل ہونے کے بعد صرف جنوبی علاقے میں عہدے داروں کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہو گئی ہے۔’ 

شہباز گل شنواری نے بہت سے ایسے پرانے کارکنوں کو عہدے دیے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مالی اعتبار سے مضبوط نہ ہوں لیکن وہ پارٹی منشور کے بھرپور حامی ہیں اور اپنی برادریوں میں تبدیلی لانے میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ نواز بنگش پیشے کے اعتبار سے موٹرسائیکل مکینک ہیں لیکن پارٹی کے کھل کر بات کرنے والے اور فعال کارکن ہیں۔ انہیں مرکزی جماعت کا تحصیل صدر مقرر کیا گیا۔ 

نوازبنگش نے کہا: 'میری گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان ہے اور میں 2009 سے پی ٹی آئی میں ہوں۔ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں سے خاصی مختلف ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی پارٹی کے اندر غلط فیصلہ کرتا ہے تو ہم کارکن خاموش نہیں رہتے۔ ہم کھری بات کرنے کے معاملے میں اخلاقی قدروں پر یقین رکھتے ہیں چاہے، کسی بھی شخصیت کی بات ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ پارٹی سے وابستہ رہتے ہیں۔' 

پارٹی کے ایک اور پرانے کارکن رحیم کو ایڈیشنل جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'میں ویلڈر کا کام کرتا ہوں۔ عہدے رکھنے والے زیادہ تر لوگ پارٹی کے ساتھ مضبوطی سے جڑے میری طرح کے نچلی سطح کے کارکن ہیں۔ تاہم میں دوسری پارٹیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرے ساتھ ہماری پارٹی کے علاقائی صدر نے رابطہ کیا۔ وہ مجھے پارٹی میں ذمہ داری دینا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے میں ویلیج کونسل میں عہدے دار تھا۔' 

ضلع کوہاٹ میں یونین کونسل بلی تنگ کے ویلیج کونسل کے صدر شاہد کہتے ہیں: 'میں پی ٹی آئی میں 2009 سے کارکن تھا۔ تاہم 2018 سے 2020 کے عرصے میں ہمیں مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ میں زیادہ فعال نہیں تھا، جس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی میں کچھ ایسے لوگوں کی موجودگی تھی جن کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم سمجھ گئے کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے کے لیے چند لوگوں کی ضرورت ہے تب وہ بہت مصروف تھے۔ یہ ہماری قربانی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اب بھی مصروف ہوں لیکن انہوں نے وفادار اور اہل لوگوں کو پارٹی میں عہدے دیے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'سیف اللہ نیازی نے ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں کا خیال رکھتی ہے۔ یہ واحد جماعت ہے جس میں کارکنوں اور عہدے داروں کی اکثریت غریب لوگ ہیں۔ حالیہ تنظیم سازی کے بعد مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی پھر الیکشن جیتے گی اور اگلے وزیراعظم بھی عمران خان ہوں گے۔' پارٹی کی حالیہ تنظیم سازی حقیقت میں خاموش انقلاب ہے جو تبدیلی اور مستقبل میں ایسی پارٹی قیادت کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے جو پارٹی اور جب کبھی ضرورت پڑے مستقبل کی حکومتوں کی باگ ڈور سنبھال لے۔ 

ایسی صورت حال میں کہ جب پی ٹی آئی کی مخالفت میں ممکنہ طور پر تیزی آ رہی ہے، چیئرمین عمران خان نے اپنے دیرینہ معتمد ساتھی کے ذریعے ضرورت پڑنے پر ایک لمحے کے نوٹس پر عام انتخابات کے لیے تیاری کے لیے خاموشی کے ساتھ زمین ہموار کر لی ہے۔ 

یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ اپوزیشن محتاط نہ ہو اور عین ممکن ہے کہ وہ کبھی اجماعتی استعفے نہ دے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ اپنے حالیہ راستے کا تعین کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے ایک بار پھر لوگوں کے ذہن میں بٹھا دیا کہ وہ ان کی جماعت ہے۔

سیف اللہ نیازی کے مطابق یہ پی ٹی آئی کے حقیقی چہرے ہیں جو دوسرے لفظوں میں پی ٹی آئی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے ٹیلی ویژن کی سکرین پر نظر نہ آئیں لیکن وہ وقت آنے پر نئے دور میں داخل ہونے کے لیے انتھک کام کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ