شہ مات لمحہ

تیسرے سال میں داخل ہونے کے باوجود نہ معاشی کامیابی ہاتھ لگی ہے، نہ طرز حکمرانی میں ڈھیر سارے وعدوں میں کوئی وعدہ وفا ہوا ہے، نہ وفاق مضبوط ہوا ہے، (ماسوائے چند پھرتیلی ترامیم )  عوام کے حق کے لیے، نہ قانون سازی ہو رہی ہے اور نہ پارلیمان مضبوط ہو رہا ہے۔

(اے ایف پی)

قوموں کی تاریخ میں ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی حزبِ اقتدار، حزبِ اختلاف اور مقتدرہ، تینوں اس مقام پر ہیں کہ تینوں بند گلی میں کھڑے ہیں، تینوں کو شہ مات ہو چکی ہے۔ تینوں کے پاس نہ آگے جانے کا راستہ ہے اور نہ پیچھے ہٹنے کا۔ تینوں کے پاس پلان بی نہیں ہے۔ تینوں کے پاس نہ جیتنے کے امکانات اور اسباب ہیں اور نہ حریف کو گرانے کے۔

عمران سرکار تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے لیکن اس سرکار کی واحد کامیابی حزب اختلاف کو مفلوج کرنا ہے۔ حزب اختلاف آج بھی تتر بتر ہے۔ نہ مزاحمت کی طاقت ہے اور نہ حکومت گرانے کی۔ مقتدرہ کے پاس نہ کوئی نئے گھوڑے ہیں اور نہ اندرونی اور بیرونی حالات کہ ’عزیز ہموطنو‘ کر دے۔

تیسرے سال میں داخل ہونے کے باوجود نہ معاشی کامیابی ہاتھ لگی ہے، نہ طرز حکمرانی میں ڈھیر سارے وعدوں میں کوئی وعدہ وفا ہوا ہے، نہ وفاق مضبوط ہوا ہے، (ماسوائے چند پھرتیلی ترامیم  کے)  عوام کے حق کے لیے، نہ قانون سازی ہو رہی ہے اور نہ پارلیمان مضبوط ہو رہا ہے۔

پارلیمان کی بجائے آرڈیننس کا کارخانہ لگا دیا ہے اور صدر عارف علوی آئے دن نئے آرڈیننس پر انگوٹھا لگاتے رہتے ہیں۔ کئی آرڈیننس پارلیمان میں پیش کرنا تو کجا، چھپائے جاتے ہیں اور کئی مدت گزر جانے کے بعد پارلیمان میں توثیق کی بجائے کاما، فل سٹاپ تبدیل کر کے دوبارہ جاری کر دیے جاتے ہیں۔ کل بھوشن یادو کا آرڈیننس پارلیمان سے چھپایا گیا اور سی پیک اتھارٹی کا آرڈیننس مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ جاری کیا گیا، اس کی مدت بھی ختم ہو گئی اور جو مجوزہ بل سامنے آیا اس نے تو اس وقت تک کے تمام ریاستی روایات کے بالکل برعکس، تمام وزارتوں سے بالا ایک ایسا ادارہ تجویز کیا ہے جس میں تمام وزارتیں ایک طرح سے اس اتھارٹی کو جوابدہ ہوں گی اور وزیر اعظم بھی بے اختیار ہو جائے گا۔

اس وقت یہ اتھارٹی اور اس کا سربراہ بغیر کسی آئینی اور قانونی جواز کے قائم و دائم ہے۔ کیونکہ مقتدرہ کی طاقت اس کے پیچھے ہے لہٰذا نہ پارلیمان میں اس پر کوئی بات ہو سکتی ہے اور نہ ذرائع ابلاغ میں۔

خارجہ پالیسی کے میدان میں پے در پے پسپائیاں اور جگ ہنسائیاں اس حکومت کا مقدر بن گئی ہیں۔ ہر آئے دن ایک نیا بحران سامنے ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تازہ جھڑپ کے پسِ لرزہ اثرات اور جھٹکے ابھی تک آ رہے ہیں۔ تمام تر اطلاعات اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ مقتدرہ کی تمام کوششوں کے باوجود اس محاذ پر آگ بجھائی نہیں جا سکی۔

وزیر اعظم نے اپنے ایک ’فرمائشی انٹرویو‘ میں معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے آپ کو شاہ محمود قریشی کے بیان سے الگ کر لیا ہے اور سعودی اور اماراتی بادشاہوں کی خارجہ پالیسی کو ان کی خود مختار پالیسی قرار دیا ہے لیکن معاملات ابھی کنٹرول میں نہیں آئے۔ اگر یہ خبریں درست ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کے دورے میں تمام تر کوششوں کے باوجود ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات نہیں ہوسکی تو اس کا مطلب صاف ہے کہ پاکستان سعودی عرب تعلقات جنوب کی طرف گامزن ہیں۔

ان ملکوں کے درمیان حالیہ ’محاذ آرائی‘ میں اہم نکتہ یہ رہا ہے کہ آیا شاہ محمود قریشی کا ’جذباتی‘ انگ جس سے سعودی اور اماراتی حکمران خفا ہوئے ہیں وہ ان کا ذاتی فعل تھا یا صلاح و مشورے کے بعد ایک سوچا سمجھا  بیان تھا؟ اس عمل کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ سوچا سمجھا عمل تھا تو کون سے نکات کو سمجھ کر شطرنج کی یہ بازی کھیلی گئی تھی؟

واقفانِ حال کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی اتنا بڑا بیان، جو خلیجی بادشاہتوں کو برہم کر دے، جس کے نتیجے میں نہ صرف قرضہ واپس ہو جائے اور ادھار تیل بند ہو جائے اور الٹا شاہ محمود کی چھٹی کا مطالبہ ہو، وزیر خارجہ کے جذباتی رد عمل کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ جڑواں شہر اس معاملے پر ایک ہی صفحے پر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بگڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ قریشی کی قربانی دینی پڑے، جس کے ملکی سیاست، خود مختاری اور پی ٹی آئی پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں بات یہ چل رہی ہے کہ شاہ محمود کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ تیل کی گرتی ہوئی معیشت، شاہی خاندان کے اندرونی اختلافات اور اندرونی سلامتی میں ہماری روایتی عسکری مدد وہ عناصر ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سعودیوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ ہماری کشمیر پالیسی کی کھل کر حمایت کریں اور اس کا نتیجہ تعلقات میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اگر ایسی کوئی سوچ تھی بھی تو وہ غلط ثابت ہوئی ہے۔ اب پسپائی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔ بعید از قیاس نہیں کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے مستقبل قریب میں وزیر اعظم کو خود ریاض جانا پڑے۔ اس کا انجام کیا ہو گا، اس کے بارے میں فی الوقت پیشگوئی مشکل ہے۔
تجزیہ کار حیران ہیں کہ تمام اہم شعبوں میں ناکامیوں کے باوجود اس سرکار کو حزب اختلاف کی طرف سے کسی بڑی تحریک کا سامنا کیوں نہیں ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ حزب اختلاف یہ تو چاہتی ہے کہ عمران سرکار کا خاتمہ ہو لیکن وہ انتخابات کے بغیر موجودہ پارلیمان کے ذریعے اقتدار کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ مقتدرہ ان حالات میں نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں پچھلے انتخابات کی برکات کے بغیر، نئے انتخابات کا نتیجہ خاصا خوفناک نکل سکتا ہے۔ کیونکہ مستقبل کے لائجۂ عمل پر اتفاق نہیں ہے اس لیے نئے انتخابات نہیں ہوسکتے۔
حزب اختلاف کے اندرونی اختلافات ابھی تک برقرار ہیں لیکن جو بات پچھلے چند دنوں میں واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جن حالات میں میاں نواز شریف پارٹی کی قیادت اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کر کے گئے تھے ان میں تبدیلی آئی ہے۔ جارحانہ کردار ادا کرنا شہباز شریف کے مزاج میں نہیں ہے اور حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ اس لیے آئندہ چند ہفتوں میں ن لیگ کی سیاست میں کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ یہ تبدیلیاں اس لیے بھی ناگزیر ہیں کیونکہ چھ ماہ بعد سینیٹ کے دوبارہ انتخابات ہوں گے۔

فی الوقت تباہ ہوتی ہوئی معیشت اور خراب علاقائی ماحول کا عذاب ہمارا مقدر ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ناگزیر ہے چاہے تین نومبر کے بعد ٹرمپ امریکی صدر رہتے ہیں یا نہیں۔ اس لیے افغان صورتحال کا ملبہ بھی ہمی پر گرنا ہے۔

اس لیے موجودہ صورت حال نے تمام فریقین کو کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے روک رکھا ہے۔ اس لیے فالج نما کیفیت طاری ہے۔ کیفیت لمبا عرصہ نہیں چلے گی لیکن فی الحال اس کیفیت نے سب کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ سب نے ایک دوسرے کو شہ مات دے رکھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر