اپوزیشن یا عمران: فاتح کون؟

نواز اگر ازخود واپس آ کر عمران حکومت کے خلاف تحریک کا عوام کے ساتھ حصہ نہیں بنتے تو بہرحال یہ سوچ اور تاثر برقرار رہے گا جسے آپ چاہے ڈیل کا نام دے لیں سمجھوتے کا یا کمپرومائز کا۔

حکومت مخالف تحریک کے لیے اپوزیشن کا بلوچستان کو نقطہ آغاز کے طور پر منتخب کرنا بذاتِ خود بڑا معنی خیز ہے (اے ایف پی)

گیارہ اکتوبر کو نوساختہ و نوزائیدہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تقریب رونمائی ہے یعنی پہلا جلسہ۔ ایک اور ایک یوں تو گیارہ ہوتے ہیں لیکن اگر مقابلے پر آ جائیں، ایک پیج والوں کے تو پھر کون نو دو گیارہ ہوگا،عوام یہ جاننے کے لیے شدید منتظر ہیں۔

حکومت مخالف تحریک کے لیے اپوزیشن کا بلوچستان کو نقطہ آغاز کے طور پر منتخب کرنا بذاتِ خود بڑا معنی خیز ہے۔ اول تو یہ وہ صوبہ ہے جس کا سیاسی انتظامی اور حکومتی کنٹرول اور غلبہ روایتی طور پر مقتدر حلقوں کے دائرہ حدود تک ہی محدود رہا ہے۔ سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں والی تمام پہرے دار خاموش زبانیں اس کی گواہی دیں گی۔

دُوجا یہ وہی جائے حسرت ہے جہاں سے ماضی قریب میں ن لیگ کے حکومتی غنچے کو بن کھِلے موسمی خزاں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس غنچے کو کاٹ پھینکنے والے کئی باغباں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ اب ن لیگ کے ساتھ مِل کر ایک نئی کیاری کی آبیاری کرنا چاہتا ہے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ خواجہ آصف جیسے بول کا تول کرنے والے ماہر سیاست دان نے جہاندیدہ و برگزیدہ آصف زرداری پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا اور نو ساختہ و نوزائیدہ اپوزیشن اتحاد میں عدم اعتماد کی ہلکی سہی مگر دراڑ یا دل کا بال ضرور ڈال دیا۔

11 اکتوبر کو ایک جمع ایک گیارہ والی اپوزیشن جب مینڈیٹ چوری کے خلاف حکومت گرانے کی تحریک کا آغاز بلوچستان سے کرے گی تو چشم فلک وہ منظر بھی دیکھے گی کہ محض دو سال پہلے یہیں سے مینڈیٹ والی حکومت گرانے والے ماہر و شاطر سیاسی کھلاڑی زرداری کی پیپلز پارٹی زخم خوردہ اور شکست خوردہ ن لیگ کے ساتھ مِل کر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگا رہی ہوگی۔

کیا بہتر نہ ہوگا کہ ووٹ کو اور عوام کو عزت دلوانے کا نعرہ ن لیگ کے ساتھ مِل کر لگانے سے پہلے پیپلز پارٹی 2018 کی منتخب حکومت کو ’مقتدر حلقوں‘ کی معاونت سے گرائے جانے پر اظہارِ تاسف تو کرے...؟

لیکن فی الحال تو لگتا ہے کہ حالات کی مناسبت سے ن لیگی شیر نے فی الحال اپنا یہ زخم چاٹ لیا ہے ہو سکتا ہے مستقبل کے حالات کی مناسبت سے کبھی اِس اقدام کو پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی استعمال کے لیے بچا رکھا گیا ہو۔

آخر کو سیاست میں نہ کوئی حرفِ آخر نہ کوئی آخری حریف۔

یہ نکتہ تو بہرحال روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کی داغ بیل ڈلنے سے لے کر آج تک نواز شریف آصف زرداری کے درمیان براہِ راست وَن آن وَن دوبدو مخصوص رابطہ نہیں ہوا۔ میڈیا اور عوام کے دکھانے کو دونوں رہنما ایک دوسرے کے بارے میں خوش کلمات کا تبادلہ تو کر رہے ہیں لیکن اندرون دوریاں اور رنجشیں دِلوں میں بہرحال برقرار ہیں وگرنہ اب تک دونوں ایک دوسرے سے فون پر ہی سہی کم از کم ون آن ون مخصوص رابطہ ضرور کرتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ حوالہ خواجہ آصف کا حالیہ بیان۔

دُوجا حوالہ اے پی سی کی اندرونی کہانی جو پہلے ہی باہر آچکی کہ کس طرح استعفوں کے معاملے پر جہاندیدہ و برگزیدہ باپ کے زِیرک بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے ترت جواب دیا کہ نواز شریف واپس آویں ہم ان کے ہاتھ استعفے تھماویں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ سیاسی نیت صاف عیاں ہے۔

اوپر اوپر سے جتنے مرضی یگانگت و مفاہمت کے پیغامات دیے جائیں اندر اندر سے بہرحال رنجش و مزاحمت تاحال برقرار ہے۔

ایک اور اہم نکتہ کہ بلوچستان وہی نکتہ آغاز ہے جہاں سے ایک سال قبل بھی عمران حکومت کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن بری طرح بے سود نکلی۔

ان چودہ سینیٹرز کے نام آج تک نہ ن لیگ سامنے لائی نہ پیپلز پارٹی نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے داخلی ووٹ کی عزت و حرمت کو یقینی نہ بنائیں گی تب تک عوامی ووٹ کی عزت محض نعروں ترانوں تک ہی محدود رہے گی۔

قابلِ غور بات تو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن آل پارٹیز کانفرنس کے بعد سے کم از کم پیپلز پارٹی نے ’مقتدر حلقوں‘ کے حوالے سے قدرے نَپی تلی اور محتاط پالیسی اپنا رکھی ہے جسے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو جیسا بھی گردانا جا سکتا ہے۔ ن لیگ جس قدر واضح طولی و اُفقی ٹکراؤ کی کیفیت میں آچکی ہے اس کی نسبت پیپلز پارٹی کی سیاسی کیفیت میں کیلکولیشن اور ترتیب نظر آتی ہے جو موجودہ معروضی حالات میں انتہائی درست پالیسی قرار دی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اِس کل تناظر میں سب سے اہم یہ ہے کہ جس قدر تلخ، انقلابی، نظریاتی موقف اور بیانیہ نواز شریف نے اپنا لیا ہے کیا وہ اِس بیانیے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان واپس آتے ہیں یا نہیں... نواز شریف کی عدم موجودگی میں ن لیگ جس قدر چاہے سخت بیانیہ اپنا لے جتنے مرضی جلسے جلوس اور ریلیاں کر لے، اِس بیانیے کی سچائی اور نیت نواز شریف کی ازخود واپسی سے ہی مشروط ہے۔

نواز اگر ازخود واپس آ کر عمران حکومت کے خلاف تحریک کا عوام کے ساتھ حصہ نہیں بنتے تو بہرحال یہ سوچ اور تاثر برقرار رہے گا جسے آپ چاہے ڈیل کا نام دے لیں سمجھوتے کا یا کمپرومائز کا۔ اگر ن لیگ کے لیے اس وقت واقعی ’ڈو اور ڈائی‘ کرو یا مر جاؤ، مارو یا مر جاؤ والی کیفیت ہے اور کھیل اب ن لیگ واقعی ختم کرنا چاہتی ہے تو نواز واپسی اِس کی اولین شرط ہے وگرنا آپ اسے طاہر القادری جیسا انقلاب ہی سمجھیے۔

زبان و بیان میں تو اللہ اکبر لیکن یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا...... 12 اکتوبر 1999 سے 11 اکتوبر 2020 تک کی تاریخ اگر اپوزیشن خاص کر ن لیگ درست کرنا چاہتی ہے تو ان تمام عوامل کی عملی طور پر نفی کرنا ہوگی جو کسی بھی طور سیاسی جماعتوں کے لیے کمپرومائز کا تاثر بھی پیدا کرتے ہوں وگرنہ حق تو یہ ہے کہ کچھ ’رابطے‘ تو 23 ستمبر کی ہنگامہ خیزی کے بعد بھی ہوئے ہیں اگرچہ بلاواسطہ ہی کیوں نہ ہوں... ایسے میں ’اصولی‘ موقف اپنائے عمران خان کی حکومت کے خلاف بلوچستان سے تحریک چلانا اور گرانا دیوانے کے خواب سے کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر