امریکی سفارت خانے کی ری ٹویٹ اور سوشل میڈیا پر نئی بحث

پاکستان میں واقع امریکی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کی ٹویٹ ری ٹویٹ کرنے کا معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کی جانب سے ٹویٹ فوراً ڈیلیٹ کردی گئی، تاہم اس کا سکرین شاٹ وائرل ہوگیا۔

پاکستان میں واقع امریکی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کی ٹویٹ ری ٹویٹ کرنے کا معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔ ایک طرف جہاں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے امریکی سفارت خانے کو 'سفارتی آداب سیکھنے' کی ضرورت پر زور دیا، وہیں امریکی سفارت خانے نے وضاحتی بیان جاری کرکے معذرت بھی کرلی ہے، تاہم معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے۔

احسن اقبال نے ایک امریکی اخبار کی ہیڈلائن 'ٹرمپ کی ہار دنیا کے بازاری لیڈروں اور ڈکٹیٹرز کے لیے دھچکا ہے'‏ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 'پاکستان میں بھی ایسا ایک (شخص) ہے جسے جلد باہر کا راستہ دکھا دیں گے۔' 

احسن اقبال کی اس ٹویٹ کو امریکی سفارت خانے کی جانب سے ری ٹویٹ کردیا گیا، جس پر ٹوئٹر پر ایک بھونچال آگیا اور سفارت خانے سے معافی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

 

 

اسی دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی مذکورہ سکرین شاٹ کے ساتھ ٹویٹ کی اور لکھا: 'ایسا لگتا ہے کہ امریکی سفارت خانہ اب بھی ٹرمپ کے زیر اثر ہے جو مفرور مجرموں کی حمایت کرتے ہیں اور ڈھٹائی سے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'نو آبادیاتی نظام صدیوں پہلے ختم ہو چکا ہے، امریکی سفارت خانے کو سفارتی آداب سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ٹویٹ جعلی ہے تو وضاحت کی جائے اور اگر اصلی ہے تو معافی مانگی جائے۔'

جس کے جواب میں ‏پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'گذشتہ رات ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا بلااجازت استعمال ہوا، ‏سفارت خانہ سیاسی پیغامات ری ٹویٹ یا ان کی تشہیر نہیں کرتا۔ بلا اجازت کی گئی پوسٹ سے ہونے والی کنفیوژن پرمعذرت خواہ ہیں۔'

انڈپینڈنٹ اردو نے جب امریکی سفارت خانے کی ترجمان میرائی زیسنس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ 'وہ سفارت خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے وضاحت جاری کر چکے ہیں اس واقعے پر وہی ان کا ردعمل ہے۔'

دوسری جانب دفتر خارجہ سے رابطہ کرنے پر انہوں نے اس معاملے پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔

تاہم وفاقی وزیر شیریں مزاری نے امریکی سفارت خانے کی جانب سے وضاحتی بیان کوبھی تسلی بخش قرار نہ دیتے ہوئے کہا کہ 'بہت تاخیرکے بعد امریکی سفارت خانے کی جانب سے یہ وضاحت کافی نہیں، امریکی سفارت خانے کا ٹوئٹر پیج قطعی طور پر ہیک نہیں ہوا بلکہ جس کسی کو اس اکاؤنٹ تک رسائی ہوگی تو اسی نے اکاؤنٹ استعمال کیا ہے۔ اس کے سنجیدہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جس میں عملے کے ویزے کی جانچ پڑتال بھی شامل ہے۔'

دیگر افراد بھی سفارت خانے کی وضاحت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

سینیئر صحافی امتیاز گل نے امریکی سفارت خانے کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کا مطلب ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا؟ کیا اس حوالے سے کوئی تحقیقات کی جا رہی ہیں؟'

دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر شہباز گِل نے کہا کہ 'یہ باعث شرمندگی ہے کہ امریکی سفارت خانہ اپنے صدرڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بارے میں ایسی سوچ رکھتا ہے۔' انہوں نے کہا کہ 'پہلی بار دیکھا ہے کہ سفارت خانہ اپنے صدر کی ایسے بے توقیری کر رہا ہے۔'

ایک ٹوئٹر صارف ملک اختر نے کہا کہ 'شاید سفارت خانے کے اہلکار نے جذبات میں بہہ کر ٹویٹ کر دی۔'

پاکستان میں مقیم امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی نے کہا کہ 'اگر امریکی سفارت خانے کا اکاؤنٹ ہیک ہوا ہے تو ذمہ دارکون ہے؟ چینی، روسی یا مزاحیہ جاسوسی فلم سیریز آسٹن پاورز کے کردار؟ سفارت خانے کو مکمل وضاحت کرنا ہوگی۔'

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل