برف میں پھنسے چودہ لوگوں کی کہانی: ’چلیں تو موت، رکیں تو بھی موت‘

'مشکل کی اس گھڑی میں مجھے اپنے بزرگوں کی بات یاد آئی کہ اگر کبھی برف میں پھنس جاؤ تو پانی کا راستہ اختیار کرو۔'

عام طور پر مہوڈنڈ جھیل سیاحوں کے لیے دسمبر تک کھلی رہتی ہے لیکن پہلی برف باری پر مالکان اور ملازمین ہوٹلوں کو تالہ لگا کر گھروں کا رخ کرتے ہیں۔

وہ ایک عام سرد رات تھی لیکن اس کی صبح سوار خان اور ان کے ساتھی ملازمین کے لیے عام نہ تھی۔ برف کی دبیز تہہ نے ہر چیز کو یوں ڈھک دیا تھا کہ راستوں کا تعین کرنا مشکل تھا۔

کالام سے تقریباً 40 کلو میٹر دور پہاڑوں کے بیچ واقع اس علاقے کا نام مہوڈنڈ ہے جو اپنے قدرتی حسن کے لیے سیاحوں میں مشہور ہے۔ اس علاقے تک جانے کے لیے جیپ میں اڑھائی سے تین گھنٹے لگتے ہیں۔ مہوڈنڈ میں سیاحوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے نیچے کی وادیوں کی دیہاتیوں نے جھیل کے آس پاس دکانیں اور چھوٹے موٹے ہوٹل کھول رکھے ہیں جہاں زیادہ تر جھیل کی تازہ مچھلی فروخت کی جاتی ہے۔

جھیل کی سیر کے لیے آنے والے سیاح مہوڈنڈ میں کچھ دیر رک کر یا تو واپس کالام کا رخ کرتے ہیں یا پھر کیمپ لگا کر آس پاس کے دیگر تاریخی مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر مہوڈنڈ جھیل سیاحوں کے لیے دسمبر کے مہینے تک کھلی رہتی ہے۔ جوں ہی پہلی برف باری ہوتی ہے اس کو سیزن کے اختتام کا اشارہ سمجھ کر ہوٹلوں کو تالہ لگا کر ملازمین اور مالکان گھروں کا رخ کرتے ہیں۔

اس بار علاقے میں خلاف معمول نومبر میں برفباری ہو گئی۔ سیاحت کے لیے مشہور خیبر پختونخوا کے علاقے کالام  کے سوار خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نومبر میں اس قدر شدید برفباری کی توقع نہیں تھی۔

انہوں نے کہا: 'ابھی تو نومبر کا دوسرا ہفتہ چل رہا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ برفباری ہوگی اور وہ بھی اتنی زیادہ۔ عام طور پر دسمبر کے آخر میں ایک یا ڈیڑھ فٹ برفباری ہوتی ہے جو ہمارے لیے ایک اشارہ ہوتا ہے۔ دوبارہ یہ جگہ مئی میں کھلتی ہے۔ جب برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔'

سوار خان نے کہا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ تمام راستے تقریباً آٹھ فٹ تک برف سے ڈھک گئے ہیں تو انہیں یقین ہو گیا کہ اب کوئی معجزہ ہی انہیں بچا سکتا ہے۔ 'ہمارے پاس آگ جلانے کا انتظام اور کھانے کا تھوڑا بہت سامان تو تھا لیکن اصل مسئلہ وہاں سے نکلنے کا تھا۔  ہم پانچ لوگ تھے۔ قریبی ہوٹلوں میں جو نو لوگ تھے وہ بھی کسی طرح ہمارے پاس پہنچ گئے اور چوتھے روز جب دن روشن ہوا اور برفباری تھم گئی تو ہم نے وہاں سے نکلنے کی ٹھانی۔'

برف میں پھنسے ان 14 لوگوں کے پاس نہ تو سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے تھے اور نہ ہی لمبے بوٹ۔ سوار خان نے بتایا کہ ہوٹل سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، لیکن وہاں رکنے کا مطلب بھی موت کا انتظار کرنا تھا۔ 'مشکل کی اس گھڑی میں مجھے اپنے بزرگوں کی بات یاد آئی کہ اگر کبھی برف میں پھنس جاؤ تو پانی کا راستہ اختیار کرو۔'

سوار کے مطابق وہ اور ان کے ساتھی قریب بہتے ایک دریا کے پاس پہنچے جہاں سے کئی میل کا فاصلہ انہوں نے دریا میں تیر کر طے کیا۔ انہوں نے کہا: 'باقی کا راستہ ہم نے گیلے کپڑوں کے ساتھ طے کرنا شروع کیا تو کچھ ساتھیوں کا حوصلہ کمزورپڑ گیا اور انہوں نے آگے نہ بڑھنے پر زور دینا شروع کر دیا۔'

اس صورت  حال میں سوار خان نہ صرف  سب کی ہمت بندھاتے رہے بلکہ جو چلنے سے قاصر تھے انہیں کاندھوں پر لادتے رہے۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں 14 نوجوانوں نے کئی میل کا سفر طے کر لیا۔ برفباری کے بعد تمام راستے بند ہوئے تو گاؤں والوں کو فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے حکومت سے امداد کا مطالبہ کیا۔ جب تین راتیں گزر گئیں تو گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کا ارادہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کالام میں مٹلتان نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ذاکراللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ منگل کو ان کے گاؤں سے 60 کے قریب لوگ پھنسے ہوئے آدمیوں کی مدد کے لیے روانہ ہوئے جن میں وہ خود بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا: 'سب کا یہی گمان تھا کہ وہ اب تک ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ ہم آگے بڑھتے رہے اور راستہ نکالتے گئے۔ دشوار گزار راستوں پر 15 میل چلنے کے بعد دور سے ہمیں آدمیوں کا ایک ٹولہ نظر آیا۔ ہمارا جوش بڑھ گیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو آواز دی۔'

ذاکر اللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب وہ سوار خان اور ان کے ساتھیوں سے ملے تو ان کی حالت شدید سردی اور بھوک سے غیر ہو رہی تھی۔  انہوں نے فوراً ان کے لیے آگ جلانے کا بندوبست کیا۔ اس کے بعد سب کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیا گیا۔ سوار نے بتایا کہ اگرچہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی طبیعت سنبھل گئی ہے لیکن ان کے ہاتھ پیر اب بھی پوری طرح سے کام نہیں کر رہے۔

مہوڈنڈ میں محصور ہونے والے دیگر افراد سے جب بات ہوئی تو انہوں نے  موسمیاتی کی تبدیلی  کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ ایسی مصیبت کا شکار کبھی نہ ہوتے۔ انہوں نے دوران سفر کھینچی گئی تصاویر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصاویر انہیں اس انوکھے اور کھٹن سفر کی یاد دلاتی رہیں گی۔

سوات  کے علاقے بحرین کے اسسٹنٹ کمشنر نے پھنسے ہوئے لوگوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 14 مقامی لوگوں سمیت چھ سیاح بھی برف میں پھنس گئے تھے جن کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی