'میں نے 1962 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1963 میں سرکاری سکول میں بطور استاد بھرتی ہوگیا، جہاں سے 2004 میں ریٹائر ہوا، لیکن تعلیم کا شوق تھا تو اب 2020 میں ایف اے کا امتحان پاس کیا ہے اور اب بی اے کرنا چاہتا ہوں۔'
یہ الفاظ خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کی تحصیل درگئی کے رہائشی 76 سالہ سید محمد خان کے ہیں، جنہوں نے ملاکنڈ یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لینے کی درخواست کی ہے۔ سید محمد سے ملنے جب راقم الحروف ان کے گھر پہنچا تو انہوں نے کچھ ان الفاظ کے ساتھ استقبال کیا: 'اللہ بھلا کرے آپ لوگوں کا کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کی اتنی قدر کرتے ہیں۔'
سید محمد نے اپنی جوانی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے میٹرک درگئی ہائی سکول سے پاس کیا اور 1963 میں ایک سرکاری سکول میں دینیات کے استاد مقرر ہوگئے۔ اس کے بعد یہ سفر جاری رہا اور 2004 میں انہوں نے 60 سال تعلیم کے پیشے سے وابستگی کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اسی سال 2020 کے سالانہ امتحان میں میں نے ایف اے پاس کیا اور شوق ہے کہ آگے بھی تعلیم حاصل کر سکوں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سید محمد کی چار بیٹیاں ہیں اور آج کل وہ اپنی بیٹی کے ہی گھر میں مقیم ہیں کیونکہ ان کی اہلیہ کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکی ہیں اور گھر میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی موجود نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا: 'مجبوری کے تحت گھر میں نہیں رہ سکتا لیکن تعلیم کا اتنا شوق ہے کہ حال ہی میں ملاکنڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے وائس چانسلر سے ملنے گیا تھا۔'
سید محمد کا کہنا تھا: 'میں چاہتا ہوں کہ بی اے کرنے کے بعد ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کروں۔مطالعے کا بھی مجھے بہت شوق ہے۔' انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پرائمری سے لے کر پوسٹ گریجویٹ تک تعلیم دلوائی ہے اور اب وہ خود آگے پڑھنا چاہتے ہیں۔
ڈگری لے کر کیا کریں گے؟
اس سوال کے جواب میں سید محمد نے بتایا: 'پہلے تو امید ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی نوکری مل جائے گی لیکن اگر نہیں ملی تو کوئی بات نہیں کیونکہ میں کسی نجی سکول میں پڑھا بھی سکتا ہوں۔' ان کا کہنا تھا: 'ایک مشہور قول ہے کہ ڈگری ضائع نہیں ہوتی۔ ڈگری حاصل کرو، اسے گھر کے کسی کونے میں رکھ دو، وہ ایک دن کسی نہ کسی کام آجائے گی۔'
اس عمر میں تعلیم حاصل کرنے پر کچھ لوگوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے سید محمد نے کہا: 'اللہ اور رسول کا حکم ہے کہ محد سے لے کر لحد تک تعلیم حاصل کرو۔' انہوں نے بتایا کہ 'اسلامیات اور عربی کورسز پر میرا عبور ہے اور میں بچوں کو یہ پڑھا بھی سکتا ہوں۔'
گاؤں کے لوگ کیا کہتے ہیں؟
سید محمد کے گاؤں میں بچیوں کے لیے قریب کوئی سکول موجود نہیں ہے۔ ان کے ایک ہمسائے محمد الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قریبی علاقے میں بچیوں کے لیے کوئی سکول موجود نہیں ہے، اس لیے زیادہ تر بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
انہوں نے سید محمد کے بارے میں بتایا: 'جب کبھی ہمارے بچے سکول نہیں جاتے یا پڑھتے نہیں ہیں تو ہم ان کو سید محمد کی مثال دیتے ہیں کہ ان سے کچھ سیکھیں، جو اس عمر میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔'
سید محمد کے تعلیمی اخراجات معاف
ملاکنڈ یونیورسٹی کے ترجمان فداللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دو دن پہلے سید محمد وائس چانسلر سے ملنے آئے تھے اور ساتھ میں فیس معافی کے لیے درخواست بھی لائے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 'یونیورسٹی نے سید محمد کی داخلہ فیس سمیت تمام تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری خود اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور وائس چانسلر سینڈیکیٹ میٹنگ میں یہ نکتہ بھی اٹھائیں گے کہ 70 سال سے زائد عمر کے افراد اگر تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کی فیس معاف ہوں گی۔'