’یہ سوچ کر برداشت کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے بنایا ہے‘

یہ دونوں بہن بھائی قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لیے صرف ’تفریح‘ کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔

’لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ چھوٹے، چھوٹے ہیں، بونے، بونے ہیں ہم یہ سوچ کر برداشت کر لیتے کہ چھوڑو جھگڑا ہو گا۔‘

یہ الفاظ ہیں گلگشت کالونی ملتان کے رہائشی 30 سالہ عمر فاروق اور ان کی 20 سالہ بہن کے۔

یہ دونوں بہن بھائی قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوگوں کے لیے صرف ’تفریح‘ کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔

اپنے والد کی وفات کے بعد وہ گلگشت کالونی ملتان میں ڈرائی کلینر کی ایک چھوٹی سی دکان پر اپنی والدہ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔جہاں وہ دکان میں جھاڑو لگانے،کپڑے استری کرنے،کمبل وغیرہ ڈرائی کلین کرنے کا کام کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ایک وقت تھا جب لوگ کپڑے استری یا ڈرائی کلین کرانے آتے تو ان دونوں بہن بھائیوں کا مذاق اڑانا اپنا فرض سمجھتے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اب صرف آتے جاتے چٹکلوں سے کام چلاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ آ ج سے نہیں بلکہ جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے کانوں کو مذاحیہ، طنزیہ الفاظ سننے کی عادت ہو گئی ہے۔

’جب سکول جاتے تو راستے میں لوگوں کے  اور سکول میں ساتھیوں کی زد میں ہوتے۔ ہمیں غصہ آتا ہے لیکن ہم برداشت کر لیتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے بنایا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ ’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو تھپڑ مار کر چلے جاتے ہیں اور تھپڑ مارتے ہوئے انہیں یقین ہوتا ہے کہ قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ مار نہیں سکیں گے، ہم برداشت کر لیتے ہیں کہ چلو چھوڑو جھگڑا ہو گا۔‘

قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان دو بہن بھائیوں نے شادی نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

’ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ ہم رنگ، نسل، مذہب سے نکل کر زندگی گزارنے کا درس تو دیتے ہیں لیکن گزارنے نہیں دیتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں ہی بظاہر تو نارمل زندگی گزار رہے ہیں مگر  ان کے اندر جو لوگوں کی باتوں اور رویوں نے ’زہر‘ بھر دیا ہے اس سے ان کی شخصیت مسخ ہو کر رہ گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی