جب ہم نے ڈرتے ڈرتے وزیرستان میں قدم رکھا

ایک دوست نے اصرار کیا کہ صبح سویرے جائیں گے کیونکہ راستے میں سکیورٹی فورسز والے ہوں گے وہ راستے میں انٹری اور تلاشی کے نام پر تنگ کریں گے، سو ہم نے بھی ارادہ کیا کہ صبح سات بجے نکلیں گے۔

(فائل فوٹو شمالی وزیرستان/ اے ایف پی)

پرسوں ہم خود بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ شمالی وزیرستان کی تحصیل رزمک اور مکین گھومنے گئے۔ پہلی بار شمالی وزیرستان جانے والے دوست کسی قدر ضرور خوف زدہ تھے کیوں کہ انہیں وہاں کے حالات کا کچھ اندازہ نہیں تھا لیکن وہاں پہنچتے پہنچتے ان کا خوف یکسر غائب ہو چکا تھا۔

ایک دوست نے اصرار کیا کہ صبح سویرے جائیں گے کیونکہ راستے میں سکیورٹی فورسز والے ہوں گے وہ راستے میں انٹری اور تلاشی کے نام پر تنگ کریں گے، سو ہم نے بھی ارادہ کیا کہ صبح سات بجے نکلیں گے۔

جب ہم صبح سات بجے نکلے اور بکاخیل پہنچے تو بکاخیل کی حدود میں قائم چیک پوسٹ پر کھڑے فرنٹیئر کور اور پولیس کے جوان نے اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے کار روکی اور سکیورٹی اہلکاروں نے پوچھا کہاں جارہے ہوں اورکہاں سے آئے ہوں؟

ہم نے ان سے کہا کہ رزمک کی طرف گھومنے جانا چاہتے ہیں۔ دل میں ڈر تھا کہ کہیں یہیں سے واپس نہ بھیج دیے جائیں، لیکن یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے باتیں کیں اور آگے جانے کی اجازت دی۔

آگے جا کر پتہ چلا کہ یہی نہیں، ہر چیک پوسٹ پر اسی طرح رویہ اپنایا جاتا رہا۔ راستے میں دوسلی سے قبل چیک پوسٹ آئی اور اس چیک پوسٹ پر فوج کے جوان تعینات تھے۔ چیک پوسٹ سے چند قدم فاصلے پر ڈرائیور نے گاڑی روکی یہاں رزمک، مکین اور شوال کے لیے انٹری ہونا تھی۔

ایک پولیس اہلکار آیا اوراس نے پوچھ گچھ کی اور کہا کہ سارے شناختی کارڈ دکھا کر انٹری کریں۔ ہمیں پھر خدشہ ہوا کہ شاید غیر مقامی لوگوں کو اجازت نہیں دی جا رہی۔ ہم نے پولیس اہلکار سے کہا کہ بھائی رزمک جانا چاہتے ہیں، میڈیا والے ہیں تو اس نے کہا کہ سامنے کھڑے فوجی جوانوں سے بات کریں۔

ہم نے فوجی سے بات کی تو اس نے بہت اخلاق اور خوش اسلوبی سے کہا کہ گاڑی آگے کریں اور آپ کرسی پر تشریف رکھیں، میں آگے صاحبان کے نوٹس میں بات لانا چاہتا ہوں۔ ساتھ میں تین چار مرتبہ چائے کا بھی پوچھا۔ تین چار منٹ بعد آگے جانے کی اجازت مل گئی اور گاڑی کا رنگ اور نمبر صاحبان کے نوٹس میں لا کر گرین سگنل مل گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رزمک پہنچے تو دوستوں نے کیڈٹ کالج کی سیر کی خواہش ظاہر کی۔ ہم نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر حمزہ ظہور، محرر شیر بہادر، ایس ایچ او لوئی دارز کے ساتھ فون پر رابطہ کیا اورکہاکہ آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں۔ کیڈٹ کالج گیٹ پہنچتے ہی ایک پولیس اہلکار ہمارے انتظار میں کھڑا تھا۔ اس سے بات کی وہ ہمیں اسسٹنٹ کمشنر حمزہ ظہور کے پاس گورنر کاٹیج لے گئے۔

اسسٹنٹ کمشنر حمزہ ظہور کے ساتھ چائے پینے اور انٹرویو سے فرصت کے بعد متعلقہ ایس ایچ او لوئی درا زسے ملے۔ انہوں نے بھی بہت عزت دی اور حالات کے پیش نظر مکین تک پروٹوکول دیا۔ مکین کی سیر کے بعد ایس ایچ او سے اجازت لی اور واپس بنوں کی طرف کار موڑ لی۔

ان ساری باتوں کا مقصد یہ ہے کہ اب وہ شمالی وزیرستان نہیں ہے جس کا نام سن کر دل پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا کہ وہاں ہر دم حملوں کا خطرہ ہے۔

آپریشن ضرب عضب میں نقصانات تو ہوئے ہیں لیکن اب امن آ گیا ہے اور ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ رزمک، مکین اور شوال جیسے حساس علاقوں میں کوئی نہیں جا سکتا تھا، مگر اب بلاخوف ہر ایک جا سکتا ہے اور ان علاقوں کے ان چھوئے حسن سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔

یہ کمی ضرور محسوس ہوتی ہے کہ یہاں ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کی طرح  سہولیات نہیں ہیں۔ اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو لوگ شمالی علاقہ جات، مری، ناران اور کالام کے علاوہ رزمک اور شوال کو بھی اپنے سیاحتی شیڈیول کا حصہ بنائیں گے اور اس سے مقامی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ