میں کوئٹہ جانے والی ہائی وے کی زمین پہ بیٹھا ہوں، یہ سڑک نہیں برف کی سل ہے اوپر آسمان وہی ہے جس کا اگلا سِرا شہر اقتدار کو چھوتا ہے۔
یہ میرے سامنے مجھ جیسے، میرے کنبےمیری ہزارہ برادری کے اور بھی کئی افراد بیٹھے ہیں۔ یہ سب بھی بالکل میری طرح ہیں حلال کمانے، چھوٹے مکانوں میں رہنے اور بمشکل گزارہ کرنے والے۔ اس ملک میں اور بھی لاکھوں ہیں جو سڑکوں پہ نکلتے ہیں، کسی کا مقصد سیاسی کسی کا مذہبی ہوتا ہے۔ لیکن میرے قبیلے کے لوگ اپنی بقا کی خاطر نکلیں ہیں۔ ہمارا ایجنڈا زندگی ہے یعنی خود کو اپنے عیال کو زندہ رکھنا۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اب سے ٹھیک چار دن پہلے تک ہم سب اپنی زندگیوں میں مصروف تھے۔ کوئی کوئلے سے سیاہ ہاتھوں کو جھاڑ کر اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا رہا تھا، کوئی خشک روٹی توڑ کر شکر کے لیے ہاتھ بلند کرتا تھا۔ پھر ہم یہاں ہائی وے پہ آگئے۔
یہاں ہماری برادری کا ایک ڈیکوریشن والا کچھ قناتیں، دریاں وغیرہ لے آیا تو یہ عارضی کیمپ بنا لیا ہے۔ جانے کو تو ہم کوئٹہ پریس کلب بھی جا سکتے تھے لیکن وہاں بیٹھے بلوچوں کو ہی کچھ نہ مل سکا ہم کہاں اتنے دن میتوں کو رکھتے۔
یہ سفید پرچموں میں لپٹی قطار در قطار رکھی میتیں ان غریب کان کنوں کی ہیں جنہیں مچھ میں بے گناہ قتل کر دیا گیا، یہ سب ہمارے ہزارہ قبیلے اور ایک ہی عقیدے کے ہیں۔ ان میں چھ بہنوں کا بھائی بھی ہے، چار بچوں کا باپ بھی، وہ جو تیسرے نمبر پر رکھی ہے وہ میت ایک نوبیاہتا لڑکے کی ہے، وہ ابھی 18 برس کا تھا۔
وہ پیچھے سیاہ عباوں، سرمئی چادروں میں جو لپٹی ہوئی ہیں ہمارے قبیلے کی وہ عورتیں ہیں جو سڑکوں پہ بیٹھنے کی عادی نہیں۔ انہی میتوں کے درمیان ایک ماں بھی ملے گی، ذرا غور سے دیکھیں تو یہیں کہیں کسی میت کے سرہانے سر جھکائے ہوگی، وہ پچھلی رات سے تابوت کا ایک کونا پکڑے بیٹھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جن کے رخسار سرد ہواوں کی سختی سے تڑخ رہے ہیں یہ بچے ہمارے ہی ہیں۔ ان میں درجنوں بچے آٹھ برس پہلے اسی کوئٹہ شہر کے علم دار روڈ پر یتیم کیے گئے، کچھ ابھی تین دن پہلے ہی اپنے شفیق باپ سے محروم کر دیئے گئے۔ جو خالی خالی نظروں سے ہمیں تک رہے ہیں۔ یہ اس سردی میں یہاں کھلے آسمان تلے بیٹھنے کی وجہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
کچھ کم سن ہیں جو طنابوں پہ لٹک کے جھول رہے ہیں یہ بھی یتیم ہیں لیکن انہیں ابھی ادراک نہیں کہ یتیمی کس بلا کا نام ہے۔ ان سے کھیلو تو مسکرا دیتے ہیں لیکن بین کرتی ماں کو دیکھ کر یہ ننھے بچے بھی گھبرا جاتے ہیں۔
یہ بالکل فرنٹ پر جو تھوڑا رش سا لگا وہاں بڑے صاحب آئے ہیں۔ وہ بڑے صاحب زلفی بخاری ہیں جو کہہ رہے ہیں انہیں درد کا احساس ہے لیکن وزیراعظم کے آنے سے کیا ملے گا؟ کل کو کوئی اور بھی مارا جائے گا وہ بھی اپنے وزیراعظم کو بلائے گا۔ بتائیں کیا ملے گا؟
میرے وزیر اعظم وہاں اسلام آباد سے بیٹھ کر ٹویٹ میں کہتے ہیں میتیں دفنا دو انہیں قبر میں سکون ملے گا۔ یہ آسودگی ہم دھرنے والوں کو کب ملے گی؟ آئندہ کبھی میتوں کو لے کر نہ بیٹھنا پڑے یہ ضمانت کب ملے گی؟
وہ کہہ رہے ہیں فرقہ واریت پڑوسی ملک کی سازش ہے بے نقاب ہوگی۔ میں سوچتا ہوں تمام تر مصلحتوں کی ہتھکڑی پہن کر کیے جانے والے ان دعووں کا اعتبار کیسے کروں، جبکہ یہ جانتا ہوں کہ یہاں چھوٹے چھوٹے فرعونوں کے بڑے لشکر بلا روک ٹوک محفوظ ہیں۔
درجنوں میتوں کے ساتھ میں ایسے دھرنے پہلے بھی کئی بار دے چکا ہوں، میں مر چکا ہوں۔
میرا قبیلہ تو اس سے پہلے بھی وعدوں پہ جی گیا تھا، کڑوے لہجوں کو پی گیا تھا، میرے قبیلے نے اس پہلے بھی اپنے پیاروں کو حوالے مٹی کے کر دیا تھا۔
یہ کون ہیں جو میرے قبیلے کو ختم کرنے کے در پہ ہیں؟ ریاست میرے دشمنوں کا نام لینے کی جرات کرے۔ ہمارے خون ناحق کا بدلہ کب لے گی؟ ریاست تاریخ دے، میں کب تک تابوتوں کے ساتھ دھرنے دیتا رہوں گا ؟ ریاست تسلی نہیں تحفظ دے۔