50 سال قبل کی گئی تحقیق کیسے کرونا ویکسین کی بنیاد بنی؟

لندن کے 86 سالہ سائنسدان پروفیسر گریگوری گریگوریاڈس نے 1971 میں اپنی ساتھی کے ساتھ مل کر لکھےگئے مقالے میں انسانی جسم میں ادویات داخل کرنے کے لیے لپوسومز (چربی کے چھوٹے قطرے) کے استعمال کی تجویز دی تھی، یہ طریقہ اب کرونا ویکسین میں استعمال کیا جارہا ہے۔

یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں پیدا ہونے والے پروفیسر گریگوریاڈس کو یونیورسٹی کالج آف لندن میں پروفیسر کا اعزازی عہدہ دیا گیا ہے۔

اس ہفتے فائرز کی ویکسین لگوانے کے بعد پروفیسر گریگوری گریگوریاڈس کا تقریباً 50 سالہ سائنسی سفر اختتام کو پہنچ گیا، جنہوں نے سب سے پہلے کووڈ ویکسین کا طریقہ تجویز کیا تھا اور اب دنیا اس پر انحصار کر رہی ہے۔

86 سالہ سائنس دان نے 1971 میں آنجہانی بائیو کیمسٹ برینڈا رائمن کے ساتھ مل کر تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا۔ اس وقت یہ دونوں رائل فری ہسپتال سکول آف میڈیسن میں کام کرتے تھے۔

مقالے میں پہلی بار تجویز دی گئی تھی کہ انسانی جسم میں ادویات داخل کرنے کے لیے لپوسومز یعنی چربی کے چھوٹے چھوٹے قطرے استعمال کیے جائیں۔

بعد میں 1974 میں گریگوریاڈس نے مشترکہ طور پر ایک رپورٹ لکھی جو سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہوئی۔ اس رپورٹ میں ویکسینوں میں لپوسومز کی افادیت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

 وقت تیزی سے گزرا اور 2021 آ گیا۔ ادویہ ساز اداروں فائزر اور موڈرنا دونوں کی تیار کردہ ویکسینیں اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے وہ جینیاتی ہدایات پہنچا رہی ہیں جو انسانی جسم کو کووڈ۔19 کو شکست دینے میں مدد دیتی ہیں۔

نارتھ وڈ، مڈل سیکس میں واقع اپنی رہائش گاہ سے دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر گریگوریاڈس نے بتایا کہ وہ اتوار کو فائزر کی ویکسین لگوا کر'بہت خوش' ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: 'ویکسین لگوانے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ ہم وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے تجویز کیا تھا کہ لپوسومز میں ویکسین لے جانے کی صلاحیت موجود ہے۔آپ تحقیق شائع کرتے ہیں اور آپ کو امید ہوتی ہے کہ یہ اہم ہے لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بات یہاں تک پہنچ جائے گی اور یہ طریقہ اس وبا سے نمٹنے میں استعمال کیا جائے گا جو اس وقت پھیلی ہوئی ہے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'جب میں نے پہلی بار کووڈ کے بارے میں سنا تومیں نے سوچا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ میرے پاس لیبارٹری نہیں کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اس معاملے میں کچھ کروں۔'

فائزر اور موڈرنا دونوں کی تیارہ کردہ ویکسینیں چربی کے چھوٹے چھوٹے ذروں کو استعمال کرتی ہیں جو ایم آر این اے (mRNA) نامی مادے کو ڈھانپ کر اسے جسم میں پہنچا دیتے ہیں۔اس مادے کی بدولت خلیے کووڈ 19 کی سپائک پروٹین تیار کرتے ہیں اور مدافعتی ردعمل وجود میں آتا ہے جو وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی پروفیسر گریگوریاڈس کی تحقیق کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں 1990 کی دہائی میں ہیپاٹائٹس اے اور فلو کی ویکسینیں تیار کی گئیں۔

 1970 کی دہائی میں لندن میں ہونے والی اہم ویکسینوں کی دریافت میں بطور 'مدافعتی نظام میں معاون' چربی کے قطروں کا کردار اہم تھا۔ ویکسین میں چربی کے قطروں کے بغیر ممکن ہے کہ فائزر کی ویکسین مدافعت پیدا کرنے میں کہیں کم موثر ثابت ہو۔

پروفیسر گریگوریاڈس نے کہا: 'کووڈ 19 کی ویکسینیں بڑی کامیابی ہیں جن کی بدولت بے شمار لوگوں کی زندگی بچانا یقینی ہے۔مجھے فخر ہے کہ عالمی سطح پر کرونا (کورونا) وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے جو ویکسین ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے، اس کی بنیاد وہ کام ہے، جو ہم نے 50 سال پہلے لندن میں کیا تھا۔'

انہوں نے مزید کہا: 'اس معاملے سے تعلق اور اس کے بعد اس ضمن میں ہونے پیش رفت کے بارے میں پڑھ کر ناقابل یقین حد تک خوشی ہوتی ہے۔اس پیش رفت کے نتیجے میں علاج کے ایسے طریقے اور ویکسینیں سامنے آ گئیں جنہیں دنیا بھر میں متعارف کروایا جا رہا ہے۔'

بقول پروفیسر گریگوریاڈس: 'ذاتی طور پر میں فائزر کی ویکسین لگوا کر خوش ہوں کیونکہ یہ بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ میں پوتوں پوتیوں کے ساتھ اپنا مزید وقت گزرتا دیکھ رہا ہوں کیونکہ میری بیوی اور میں 2020 میں انہیں اتنا نہیں دیکھ سکے، جتنا دیکھنا چاہتے تھے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں پیدا ہونے والے پروفیسر گریگوریاڈس کو یونیورسٹی کالج آف لندن میں پروفیسر کا اعزازی عہدہ دیا گیا ہے۔ ان کے چار سو تحقیقی مقالے، جائزے، مضامین ، کتابوں کے ابواب سمیت ادویات اور ویکسین کی ڈیلیوری سے متعلق 27 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

یہ دریافتیں کس طرح ہوئیں؟ اس حوالے سے نہوں نے بتایا: 'میں 1970 میں دا رائل فری ہسپتال سکول آف میڈیسن میں قائم برینڈا رائمن کی لیبارٹری سے منسلک ہوا تا کہ ایسے طریقوں پر کام کرسکوں جو  گلائیکوجن ذخیرہ ہونے کی بیماری میں جگر کو ہدف بنا سکتے ہوں۔اس بیماری میں ایک انزائم کی عدم موجودگی میں نشاستہ جگر میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔'

'ایک طریقہ جس پر غور کیا گیا وہ نائلون سے بنے کیپسول تھے۔ میں نے نائلون کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ خود بخود تحلیل نہیں ہوتا۔'

انہوں نے کہا کہ لیبارٹری میں ایک سائنس دان لپوسومز پر کام کر رہے تھے، جس کے بعد وہ اور ڈاکٹر رائمن مطلوبہ انزائم کو جگر تک پہنچانے کے لیے چربی کے قطروں کو آزمانے اور انہیں استعمال کرنے پر متفق ہو گئے۔

'اس کے نتیجے میں یہ پتہ چلا کہ خشک چربی کو مائع انزائم کے ساتھ ملا کر ہلانے سے یہ انزائم چربی کے قطروں میں قید ہو جاتا ہے۔' اس نتیجے کے بعد مزید تحقیق اور اس پیش رفت میں کئی سال لگے جن کی بدولت سائنس دان کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پروفیسر گریگوریاڈس نے دا انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی بہتر ہوتی رہے گی اور چربی کے انتہائی چھوٹے ذرات کا طریقہ، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے طریقے سے ویکسینز کی تیاری کے مقابلے میں زیادہ آسان اور بہتر ہے، مستقبل میں مزید عام ہو جائے گا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق