بھارت اور چین میں دوبارہ پرتشدد جھڑپیں

یہ جھڑپیں سکم میں حقیقی کنٹرول لائن کے ناکو لا سکیٹر میں پانچ روز قبل یعنی 20 جنوری کو ہوئیں اور ’نامعلوم وجوہات کی بنیاد‘ پر ان جھڑپوں سے متعلق تفصیلات کو اب تک پوشیدہ رکھا گیا تھا۔

(گوگل میپ)

بھارت کی شمال مشرقی ریاست سکم میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں جن میں دونوں اطراف کے متعدد فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

یہ جھڑپیں سکم میں حقیقی کنٹرول لائن کے ناکو لا سکیٹر میں پانچ روز قبل یعنی 20 جنوری کو ہوئیں اور نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ان جھڑپوں سے متعلق تفصیلات کو اب تک پوشیدہ رکھا گیا تھا۔

ان جھڑپوں کے باوجود مشرقی لداخ کی صورتحال پر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان اتوار کو بات چیت شروع ہو  چکی ہے جو معاملے پر جاری مذاکرات کا نواں دور ہے۔ بھارت مشرقی لداخ میں چین کے ساتھ امن اور بحران کا فوری حل چاہتا ہے۔

سکم مشرقی لداخ سے ہزاروں کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اور یہاں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں نے دونوں ملکوں کی سرحدی صورتحال کو مزید تشویش ناک بنا دیا ہے۔

گذشتہ سال جون میں لداخ کی گلوان وادی میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپوں، جن میں کم از کم 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے، کے بعد یہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تنائو کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔

انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق سکم کے ناکو لا سیکٹر میں گذشتہ ہفتے بھارت اور چین کی افواج کے درمیان اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں جب چین نے بھارتی حدود میں دراندازی کرنے کی کوشش کی۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے: 'چینی فوجیوں نے گذشتہ ہفتے شمالی سکم کے ناکو لا سیکٹر میں سرحد عبور کر کے بھارتی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ جب بھارتی فوج نے چینی فوج کی دراندازی پر اعتراض کیا تو طرفین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں بھڑک اٹھیں۔'

بھارت کے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے چین کی سکم میں دراندازی کی کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا: ’چین بھارت کی حدود میں اپنا قبضہ پھیلا رہا ہے۔ مسٹر 56 انچ (نریندرا مودی کی چھاتی کی طرف طنزیہ اشارہ کرتے ہوئے) نے کئی ماہ سے چین کا نام نہیں لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اب چین کا نام لے ہی لیں۔‘ 

انڈیا ٹوڈے کے مطابق جھڑپوں کے دوران 20 چینی اور 4 بھارتی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ جھڑپوں کے دوران کس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہے اور چوٹوں کی نوعیت کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے: 'خراب موسمی حالات کے باوجود بھارتی فوج نے چینی فوجیوں کو واپس دھکیلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ علاقے میں صورتحال پرتناو مگر قابو میں ہے۔'

بھارتی فوج نے ناکو لا سیکٹر میں پیش آنے والی جھڑپوں پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ معاملے کو مقامی کمانڈروں نے پہلے سے وضع کردہ پروٹوکول کے مطابق حل کر لیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے: 'شمالی سکم کے ناکو لا سیکٹر میں 20 جنوری 2021 کو طرفین کے درمیان معمولی نوک جھونک ہوئی۔ تاہم مقامی کمانڈروں نے وضع کردہ پروٹوکول کے مطابق معاملے کو حل کر لیا۔'

دوسری جانب بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق لداخ کے ایک گاؤں کے رہائشی کی بنائی گئی ویڈیوز میں چینی شہریوں اور گاڑیاں کو بھارتی علاقے میں دخل اندازی کرتے دیکھا جا سکتا ہے، حالانکہ دونوں ممالک کے مابین سرحدی معاملے کو حل کرنے کے سلسلے میں فوجی سطح پر بات چیت جاری ہے۔ 10 اور 16 دسمبر 2020 کو ڈیمچک سیکٹر سے لی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ چینی گاڑیوں کو مقامی اہلکار واپس بھیج رہے ہیں۔

چینیوں نے ہندوستانی فوج کو متعدد چیک پوسٹوں تک رسائی سے بھی انکار کیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایل اے سی پر ہندوستانی علاقے کی حد کیا ہے۔

شمالی سکم میں ناکو لا سیکٹر سطح سمندر سے 19 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ سیکٹر سکم کو خطہ تبت سے جوڑتا ہے اور اسے ایک حساس سیکٹر بھی متصور کیا جاتا ہے۔

اس سیکٹر میں گذشتہ برس مئی میں بھی بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے ایک ماہ بعد گلوان وادی میں خونریز جھڑپوں میں بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

گلوان وادی میں خونریز جھڑپوں کے دوران چینی فوج نے بھارتی فوج پر حملہ آور ہونے کے لیے جدید ہتھیاروں کی بجائے لوہے کی کیل لگی سلاخوں اور خاردار تار سے لپٹی لاٹھیوں کا استعمال کیا تھا۔ بعض بھارتی فوجیوں نے ان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دی تھیں۔

وادی گلوان میں جھڑپوں کے دوران جدید ہتھیار استعمال نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ بھارت اور چین کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہوا ہے جس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کتنی ہی کشیدگی کیوں نہ ہو، دونوں سرحد پر جھڑپوں سے بچیں گے اور سرحد پر تعینات فوجیوں کے پاس ہتھیار نہیں ہوں گے۔

مذاکرات کا نواں دور

مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر جاری تناو کو کم کرنے کے لیے اتوار کو بھارت اور چین کے فوجی افسروں کے درمیان مذاکرات کا نواں مرحلہ شروع ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی میڈیا کے مطابق مذاکرات کے گذشتہ مرحلوں میں بھارت نے چین پر زور دیا تھا کہ وہ مشرقی لداخ میں ان تمام مقامات سے اپنی فوج واپس بلا لے جہاں طرفین کے درمیان ٹکراو کے خطرات ہیں۔

مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان گذشتہ 9 ماہ سے جاری تناو ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور بھارت نے اس خطے میں قریب پچاس ہزار فوجی جوانوں کو تعینات کر کے الرٹ پر رکھا ہے۔ چین نے بھی اتنی ہی تعداد میں اس خطے میں اپنے فوجی جوانوں کو تعینات رکھا ہے۔

بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت تب تک حقیقی کنٹرول لائن پر فوج کی تعداد میں کمی نہیں کرے گا جب تک چین ایسا عمل شروع نہیں کرے گا۔

انہوں نے مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہونے پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سرحد پر اپنے انفراسٹرکچر کو مضبوط بنا رہا ہے جس میں سے کچھ پر چین نے اعتراض کیا ہے۔.

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا