سوشل میڈیا رولز پر نظر ثانی کے لیے حکومت تیار: قوانین تھے کیا؟

گزشتہ برس اٹھائیس جنوری کو وفاقی حکومت نے ’سکیورٹی  اداروں، ملکی سلامتی کے خلاف اور مذہبی منافرت پھیلانے والے مواد کو کنٹرول‘ کرنے کی خاطر سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے تھے۔

(پکسابے)

اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری سماعت کے دوران کہا ہے کہ ’حکومت سوشل میڈیا رولز پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہے اور پٹیشنرز، متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد نظر ثانی کی جائے گی۔‘ 

سوموار کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سوشل میڈیا رولز کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کی گئی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے اور لگتا ہے کہ سوشل میڈیا رولز بناتے ہوئے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی۔

سوشل میڈیا رولز کے خلاف پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اور سول سوسائٹی  نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ جس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ  پی ٹی اے نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے از خود رولز  بنا کر عدالت میں پیش کیے جو آئین سے متصادم ہیں انہیں فی الفور ختم کیا جائے۔ 

قوانین تھے کیا؟

گزشتہ برس اٹھائیس جنوری کو وفاقی حکومت نے ’سکیورٹی  اداروں، ملکی سلامتی کے خلاف اور مذہبی منافرت پھیلانے والے مواد کو کنٹرول‘ کرنے کی خاطر سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ مونا خان کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے جاری شدہ نوٹیفکیشن  کے مطابق سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے وزیر آئی ٹی کی سربراہی میں اتھارٹی قائم کی جانی تھی، جس میں  تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت متوقع تھی۔

نوٹیفکیشن میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی  کے حوالے سے  مزید کہا گیا کہ شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے کے خلاف قوانین بنائے ہیں جس کے تحت تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو تین ماہ میں رجسٹریشن کرانے کا پابند کیا گیا۔

ان رولز میں یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو تین ماہ میں رجسٹر کرانے کا پابند کیا گیا تھا۔

رولز  کے مطابق  تمام سوشل میڈیا کمپنیوں نے تین ماہ کے دوران اسلام آباد میں اپنا آفس قائم کرنا تھے اور مقامی پاکستانی فوکل پرسن تعینات کرنے تھے۔اس کے علاوہ ان کمپنیوں کو پاکستانی شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ایک سال کے اندر اندر پاکستان میں ڈیٹا سرور بنانا تھا۔

پاکستان میں الیکٹرونک کرائمز کے قوانین کون سے ہیں؟

پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے 2002 میں ایک قانون متعارف کرایا گیا تھا، لیکن وہ مکمل فعال نہ ہوا۔ پھر  2016 میں پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون  پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 یا ’پیکا‘ منظور کیا ،جس کے تحت سوشل میڈیا پر متنازع مواد ، سکیورٹی  اداروں اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈا کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کر سکتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پیکا 2016 کے رولز میں ترمیم کرکے سیٹیزن پروٹیکشن رولز  شامل کر دیے۔

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند تھیں اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 5 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا جا سکتا تھا۔ اس میں جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل تھی۔

رولز کے مطابق اگر بیرون ملک مقیم افراد پاکستان یا  سکیورٹی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا،  جھوٹ پر مبنی خبریں ، مذہبی ، فرقہ وارانہ منافرت یا نسلی تعصب پھیلائیں تو اُن کے اکاؤنٹس  معطل اور مواد ہٹانا ضروری قرار دیا گیا۔ 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان