ولور: بہن یا بیٹی کی شادی کے عوض پیسے لینے کی فرسودہ رسم

یہ رسم بہت زیادہ قدیم نہیں بلکہ علما کا ماننا ہے کہ یہ رسم پشتون معاشرے میں کرنسی سسٹم آنے کے بعد رائج ہوئی اور پھر مضبوط ہوتی چلی گئی۔

زیادہ تر واقعات میں ولور پر لڑکی کا حق ملکیت تسلیم نہیں کیا جاتا اور والدین اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں جس کی بنا پر اس قبیح رسم کی وجہ سے اس لڑکی کی زندگی جہنم بن جاتی ہے  (فائل تصویر: اے ایف پی)

جب چائے تیار ہوگئی تو بی بی سلیمہ کی ساس نے کہا کہ ’تمہارے گھر والوں نے پیسے لے لیے لیکن سامان میں کیتلی اٹھانے والا کپڑا نہیں رکھا، اس لیے اسے اب گرم ہی اٹھالو۔‘

بی بی سلیمہ کو سسرال میں اس طرح کے طعنوں کا سامنا اکثر کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی شادی کے بدلے گھر والوں نے ’ولور‘ کے نام پر پیسے لیےتھے۔

وہ بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے منزکی سے تعلق رکھتی ہے، جن کی شادی 15 سال پہلے ہوئی تھی۔

سلیمہ کی زندگی کا ہر لمحہ کرب سے گزرتا ہے۔ انہیں اٹھتے بیٹھتے ہر وقت یہی طعنہ ملتا ہے کہ ان کے گھر والوں نے پیسے زیادہ لیے لیکن گھر کا سامان کم بھیجا ہے۔ وہ چاہیں بھی تو شکایت نہیں کرسکتیں کیوں کہ ولور کے ذریعے ان کی والدین نے ان کے سسرال والوں سے بڑی رقم وصول کی تھی۔

یہ صرف سلیمہ کی کہانی نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی لڑکیاں ہیں، جن کی زندگیوں کا سودا پشتون معاشرے میں ولور کے نام پر کردیا جاتا ہے۔

ولور ہے کیا؟

ولور پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے عوض پیسے لینے کے ہیں۔

یہ رسم بہت زیادہ قدیم نہیں بلکہ علما کا ماننا ہے کہ یہ رسم پشتون معاشرے میں کرنسی سسٹم آنے کے بعد رائج ہوئی اور پھر مضبوط ہوتی چلی گئی۔

کرنسی آنے سے قبل اجناس کے بدلے اجناس دیئے جاتے تھے۔ ولور کی رقم اصولی طور پر دو چیزوں کے لیے لی جاتی ہے۔ کڑدار اور خوشئے۔

کڑدار سے مراد گھریلو استعمال کی وہ چیزیں ہیں، جو والدین کی جانب سے اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر دی جاتی ہیں۔ اس میں کپڑوں سے لے کر برتنوں تک ضرورت کی تمام اشیا شامل ہیں۔ (آج کل فریج ، ٹی وی اور واشنگ مشین جیسے آلات بھی اسی کڑدار کا حصہ ہیں)

خوشئے کا لفظ اس کھانے کے لیے مستعمل ہے، جو شادی کے موقع پر تقریب میں آنے والے لوگوں کے لیے تیار کیاجاتا ہے۔

باقاعدہ وثوق سے تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، تاہم اندازہ یہ ہے کہ کرنسی سے قبل جب جنس کے بدلے جنس کی تجارت ہوتی تھی، اس وقت لڑکی کے اہلخانہ کڑدار (گھریلو سامان) لڑکے والوں پر رکھ کر خوشئے (کھانے پینے) کے لیے لڑکے والوں سے اناج وغیرہ لیتے ہوں گے، مگر جب کرنسی آئی تو اس کی شکل اور ہیئت بدل گئی اور لڑکی کے والدین کو نقد رقم دی جانے لگی۔

اس رسم کے خاتمے کی کوشش

موسیٰ کلیم اسلام آباد کے رہائشی اور ’یونائیٹڈ ہمدرد یوتھ‘ کے نام سے ایک سماجی تنظیم کے روح رواں ہیں، جو اس رسم کو ختم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

موسیٰ کو اس رسم کے نقصانات کا احساس اپنے خاندان کی ایک لڑکی کے رشتے کے دوران ہوا۔

انہوں نے بتایا: ’میرے ایک رشتے دار کے صاحبزادے ترکی میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ اس دوران یہاں پاکستان میں ان کی شادی طے کردی گئی، جبکہ ولور کے لیے 11 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی اور لڑکے کو بتایا گیا کہ اب وہ پیسے جمع کرے تاکہ اس کی شادی ہوسکے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس نے پانچ سے سات سال لگائے اور جو کمایا اس سے ولور کی رقم ادا کی۔ موسیٰ کے مطابق: ’صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب لڑکے کے پاس شادی کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں رہے۔‘

’اس کے بعد اس نوجوان نے یہاں محنت مزدوری شروع کی اور ایک سال کی کمائی کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ وہ شادی کرکے اخراجات پورا کرسکے۔‘

یہی وجہ ہے کہ وہ اس رسم کی خرابیوں کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پشتون معاشرے کی پسماندگی میں اس رسم کا اہم کردار ہے۔

موسیٰ کے بقول: ’ایک اندازے کے مطابق یہ رسم پانچ ہزار سال پرانی ہے، جس کا خاتمہ شاید آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک غلط رسم ہے، جسے پشتون معاشرے کے لوگ بھی برا سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

موسیٰ نے بتایا کہ اس میں لوگ اپنی بیٹی اور بہن کے عوض 20 لاکھ روپے تک بھی لیتے ہیں، جس کو پورا کرنے کے لیے نوجوان اکثر غیرقانونی طور پر بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں، جن میں سے کچھ تو پہنچ جاتے اور بعض راستے میں ہی سمندر برد ہوجاتے ہیں۔

مخالفت کتنی ہے؟

ولور کی رسم قدیم ہے اور یہ معاشرے میں گھر کرچکی ہے۔ موسیٰ نے بتایا کہ ولور کے خلاف مہم کے دوران ان کی مخالفت بھی جاری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ اس کے خاتمے سے ان کو پیسے ملنا بند ہوجائیں۔

تاہم اس تنظیم کے رہنماؤں کو کامیابی کا یقین ہے اور ان کی محنت کے باعث بہت سے لوگ اس رسم کی خرابیوں کو جاننے لگے ہیں۔

موسیٰ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ولور کی طرح ایسی بہت سے رسم و رواج موجود ہیں، جو ہماری شعوری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

موسیٰ کو جہاں ایک طرف مخالفت کا سامنا ہے، وہیں انہیں بعض مقامات پر کامیابی بھی مل رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’جب ہم نے لوگوں میں آگاہی مہم چلائی اور اسلام آباد میں جلسہ کیا تو وہاں ہمارے قوم کے مشر مولوی محمد عمر نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی 12 لاکھ روپے کے عوض طے کی ہے، لیکن چونکہ وہ اس رسم کی خرابیوں کو سمجھ گئے ہیں، اس لیے وہ یہ پیسے معاف کرتے ہیں اور بیٹی کی شادی اس کے بغیر کریں گے، جس کے لیے انہوں نے سب کو آنے کی بھی دعوت دی۔مولوی محمد عمر نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ہونے والے داماد بھی پیسے جمع کرنے کے لیے دبئی میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔‘

موسیٰ کی اس تنظیم کے زیر اہتمام اس رسم کے حوالے سے اب تک لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، گجر خان اور جہلم میں جلسے ہوچکے ہیں، جہاں لوگوں کو اس کے حوالے سے آگاہی دی گئی۔

موسیٰ نے بتایا کہ جلسوں میں نہ صرف ہم آگاہی دیتے ہیں بلکہ وہاں موجود ہر ایک سے ایک معاہدے پر دستخط بھی لیتے ہیں، جس میں وہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ اس رسم کو ختم کررہے ہیں۔

باریکی کیا ہے؟

تاہم یہاں ایک بہت ہی باریک نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ولور حق مہر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اگر حق مہر کے شرعی تقاضوں کے مطابق اس پر لڑکی کا حق تسلیم کیا جائے تو شاید پھر یہ رسم بجائے نقصان کے فوائد کی حامل ہو، مگر زیادہ تر واقعات میں ولور پر لڑکی کا حق ملکیت تسلیم نہیں کیا جاتا اور والدین اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں جس کی بنا پر اس قبیح رسم کی وجہ سے اس لڑکی کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور نوبت یہاں تک بھی پہنچ گئی ہے کہ جب تک لڑکی والوں کو رقم نہ ملے، اس وقت تک شادی التوا کا شکار رہتی ہے ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ یہ رسم اب رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے مگر ہنوز باقی ہے اور اس کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ بہت سارے لوگ لڑکی کی پیدائش پر ہی اس کارشتہ طے کر دیتے ہیں، ولور کی رقم طے کرلی جاتی ہے اور لڑکے اور لڑکی کی عمروں میں حائل فرق کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔

جیسے ہی لڑکے والے ولور کی رقم ادا کرتے ہیں، شادی کا تقاضا شروع کردیا جاتا ہے۔ اب اگر ولور کی رقم سے بیٹی کو کڑدار (سامان لے کر) دیا گیا ہو اور باراتیوں کی اچھی خاطر تواضع ہوئی ہے تو پھر بھی معاملہ کسی حد تک درست رہتا ہے، لیکن اگر بیٹی کو سامان بھی نہ دیا جائے اور خوشئے (کھانا) بھی ٹھیک نہ ہو تو پھر بیٹی کو سسرال میں ساری زندگی طعنے سننے اور سہنے پڑتے ہیں ۔

ولور کی رسم یوں تو پورے پشتون بیلٹ میں رائج ہے، تاہم وہ علاقے جو افغانستان سے متصل ہیں وہاں ولور کی رقم قدرے زائد ہے ۔

عام طو رپر پشتونوں میں کچھ ایسی بھی رسوم ہیں جن کی ہیئت اور شدت قبیلوں کے اعتبار سے کہیں زیادہ اور کہیں کم ہوتی ہے مگر واحد رسم ولور کی ہے جو قبیلوں کی بجائے علاقائی حیثیت کی حامل ہے۔

مثال کے طور پر بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اچکزئی، کاکڑ، ترین، سید یا دیگر قبائل میں ولور کی رقم زیادہ ہے، جو عام طور پر پانچ سے چھ لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور اگر لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے تو رقم مزید بڑھ جاتی ہے۔

اسی طرح پشین اور خانوزئی وغیرہ میں یہ رقم کچھ اور جبکہ مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ اور ژوب میں کچھ اورہے ۔

زیارت کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ولور کی رقم کئی عشروں سے دم توڑ چکی ہے اور شرعی حق مہر ہی لیا جاتا ہے جبکہ سنجاوی، ریگوڑہ اور پوئی وغیرہ جو زیارت ہی کا حصہ ہیں وہاں اب بھی ولور کی رسم عام ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین