سدپارہ مکالو سر کرنے نکل پڑے

پاکستانی کوہ پیما نے نیپال میں واقع کوہ ہمالیہ کی مکالو چوٹی سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور آئندہ ماہ ان کی واپسی متوقع ہے۔

بھارتی فوج نے گذشتہ دنوں دعویٰ کیا کہ انھیں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر مکالو بیس کیمپ کے قریب ’ییٹی‘ (دیو ہیکل برفانی انسان) کے قدموں کے نشان ملے ہیں۔

ان کے اس دعوے پر جہاں سوشل میڈیا صارفین حیرت کا اظہار کرتے رہے وہیں ان کی ٹویٹ کا مذاق بھی اڑیا جاتا رہا۔

اب بھارتی فوج کو مکالو پر ’ییٹی‘ کے قدموں کے نشان ملے یا نہیں یہ تو وہ ہی جانیں، لیکن پاکستان کے معروف کوہ پیما ضرور مکالو سر کرنے نکل پڑے ہیں۔

حال ہی میں محمد علی سدپارہ نے نیپال میں موجود کوہ ہمالیہ کی مکالو چوٹی سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور آئندہ ماہ ان کی واپسی متوقع ہے۔

روانگی سے قبل محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ اونچائی کی چوٹیوں کے سرکل کو مکمل کرنا ان کا دیرینہ خواب ہے۔ 42 سالہ کوہ پیما پرامید تھے کہ وہ آئندہ چند سالوں میں اپنا یہ ہدف حاصل کر لیں گے۔

پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے دنیا کی آٹھ ہزار میٹر سے بلند تمام چوٹیوں کو سر کرنے کے عزم کر رکھا ہے۔

دنیا میں ایسی 14 چوٹیاں ہیں، محمد علی جن میں سے پانچ سر کر چکے ہیں۔ ان میں نانگا پربت بھی شامل ہے۔ آٹھ ہزار چار سو 85 میٹر اونچی مکالو دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی ہے۔ محمد علی کا خاصہ ہے کہ وہ ہمیشہ سردیوں میں چوٹیاں سر کرتے ہیں جو انتہائی مشکل اور خطرناک ہونے کے علاوہ مہنگا کام بھی ہے کیوں کہ اس کے لیے مخصوص لباس اور آلات کی ضرورت پڑتی ہے۔ 

محمد علی نے بتایا کہ کوہ پیمائی ہی ان کا روزگار ہے اور اسی سے وہ اپنا خاندان اور کوہ پیمائی کا شوق پالتے ہیں۔

شروع میں انہوں نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ سردیوں کی کوہ پیمائی گرمیوں کی نسبت آسان ہے۔ حقیقت معلوم ہونے پر محمد علی کو گھر والوں کو قائل کرنے میں بہت وقت لگا۔

محمد علی نے بتایا کہ وہ کوہ پیمائی میں مصنوعی طریقہ استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ کوہ پیمائی کے دوران انہوں نے کبھی مصنوعی آکسیجن ساتھ نہیں رکھی۔ مکالو کی چوٹی بھی وہ بغیر مصنوعی طریقے استعمال کیے سر کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد علی نے کہا پاکستان میں کوہ پیمائی کی تربیت کے مواقع بہت کم ہیں، اور حکومت کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گلگت پلتستان سے تعلق رکھنے والے محمد علی اپنے طور پر کچھ نوجوانوں کو تربیت دیتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل