پتوکی ریڈ لائٹ ایریا سے تین نابالغ بچیوں کی بازیابی پولیس کے لیے معمہ

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے پولیس کے ساتھ مل کر پتوکی کے علاقے پرانی منڈی میں ایک گھر سے تین نابالغ بچیوں کو بازیاب کروایا تھا، جو ملزمان کو اپنا رشتہ دار بتاتی ہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کے مطابق بازیاب کروائی گئی بچیوں کی عمریں  سات سے نو برس کے درمیان ہیں (اے ایف پی)

پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل پتوکی کے علاقے پرانی منڈی میں واقع ریڈ لائٹ ایریا کے ایک گھر سے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو (سی پی ڈبلیو بی) اور پولیس ٹیم نے چند روز قبل چھاپہ مار کر تین نابالغ بچیوں کو بازیاب کروایا تھا۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے مطابق ان بچیوں کو مبینہ طور پر اغوا کرکے یہاں رکھا گیا تھا اور اغوا کار اسی کام میں ملوث ہیں کہ وہ نومولود بچیوں کو مختلف شہروں سے اغوا کرکے یہاں لاتے ہیں، پالتے ہیں اور پھر انہیں ریڈ لائٹ ایریا میں کام کرنے کے لیے فروخت کردیتے ہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئر پرسن سارہ احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو واقعے کے حوالے سے بتایا کہ 'پرائم منسٹر پورٹل پر ایک شکایت موصول ہوئی کہ پتوکی میں پرانی منڈی کے ریڈ لائٹ ایریا کے ایک گھر میں سمیر اور عباس نامی شخص نے تین بچیوں کو زبردستی رکھا ہوا ہے۔ ہمارے چائلڈ پروٹیکشن آفیسر احتشام نے جگہ کی نشاندہی کرکے جب پولیس سے رابطہ کیا تو پولیس نے یہ کہتے ہوئے کارروائی کرنے سے انکار کر دیا کہ پرائم منسٹر پورٹل پر شکایت کنندہ کی شناخت جعلی ہے، لہذا ہم اس پر کارروائی نہیں کر سکتے۔'

سارہ کے مطابق: 'پولیس کے انکار کے بعد ہم نے عدالت سے اس گھر کا سرچ وارنٹ حاصل کیا اور پھر پولیس کی مدد سے وہاں چھاپہ مارا اور تین بچیوں کو بازیاب کیا، جن کی عمریں سات سے نو برس کے درمیان ہیں۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو  ان بچیوں کو لاہور میں واقع اپنے ادارے میں لایا اور یہاں آ کر جب بچیوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ملزمان ان کے رشتے دار ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب انہیں کسی ہسپتال وغیرہ سے اغوا کیا گیا تو یہ بچیاں شیر خوار تھیں۔'

'اسی لیے اب چائلڈ پروٹیکشن بیورو ان بچیوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی درخواست عدالت میں دے گا۔'

دوسری جانب بیورو کے چائلڈ پروٹیکشن افسر احتشام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'جو شکایت موصول ہوئی تھی، اس میں شکایت کنندہ نے چار بچیوں کا ذکر کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ عباس نامی شخص خود کو ان بچیوں کا والد بتاتا ہے، لیکن ان کی اپنی عمر خاصی کم ہے اور بچیوں کو تحویل میں رکھنے والے سمیر اور عباس بچیوں کو بیچنے کا کام کرتے ہیں۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ 'جب ہم نے پولیس کے ساتھ وہاں چھاپہ مارا تو چار کی بجائے تین بچیاں برآمد ہوئیں جن میں سے دو کے نام بھی وہی تھے جو شکایت میں درج کیے گئے تھے۔'

احتشام کے مطابق: 'اب چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو عدالت کے ذریعے پولیس کو یہاں بلائے گا، وہ مزید تفتیش کرے گی اور عدالت ان بچیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم جاری کرے گی۔ اگر ڈی این اے ملزمان سے میچ نہیں ہوگا تو بچیوں کو یہیں بیورو میں ہی رکھا جائے گا، وہ یہاں پڑھیں گی اور یا پھر ان کی اڈاپشن بھی کروائی جاسکتی ہے۔'

ایس ایچ او تھانہ سٹی پتو کی طاہر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس واقعے کے حوالے سے گفتگو میں بتایا کہ 'یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی چند سال پہلے یہاں سے کچھ بچیاں برآمد کی گئی تھیں، جن کے حوالے سے معلوم ہوا تھا کہ ان بچیوں کو مختلف جگہوں سے یا یتیم خانوں سے اغوا کرکے یہاں لایا گیا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ یہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن پولیس صرف اس صورت میں چھاپہ مار سکتی ہے جب ان کے پاس کوئی شکایت درج ہو جیسے اس حالیہ کیس میں پرائم منسٹر پورٹل پر شکایت درج ہوئی اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو والوں نے ہم سے رابطہ کیا اور ہم نے موقع پر کارروائی کرکے بچیاں برآمد کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایس ایچ او طاہرکے مطابق: 'جب گھر پر چھاپہ مارا گیا تو عباس نامی شخص کا کہنا تھا کہ یہ گھر سمیر کا ہے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس گھر میں مہمان آیا ہوا ہے۔ پولیس نے عباس کوگرفتار کرکے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ سمیر فرار ہے۔'

 طاہر محمود نے مزید بتایا کہ اس کیس میں چونکہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو مدعی ہے، اس لیے بچیوں اور ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے وہی عدالت سے درخواست کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب اس کیس کے تفتیشی افسر سب انسپیکٹر ظفر اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میرے لیے تو یہ کیس معمہ بنا ہوا ہے۔ بچیاں لاہور چلی گئی ہیں اور میں نے ان کا بیان ریکارڈ کرنا ہے لیکن میرے رابطے میں ہی کوئی نہیں آرہا۔ ملزم کا کہنا ہے کہ وہ بچیوں کا باپ ہے اور یہیں کا رہائشی ہے۔ ملزم کسی طور پر یہ نہیں مان رہا کہ اس نے بچیاں اغوا کی ہیں جبکہ چائلڈ پروٹیکشن والوں نے ابھی تک ہم سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔'

تفتیشی افسر کے مطابق: 'صورتحال کلیئر نہیں ہے کیونکہ بچیاں بھی عباس کو ہی اپنا والد بتا رہی ہیں۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'ایڈیشنل سیشن جج قصور نے بھی میری سرزنش کی کہ میں نے عدالت میں بچیاں پیش نہیں کیں جبکہ بچیوں کو تو چائلڈ پروٹیکشن والے لے گئے۔ دوسرا ان بچیوں کا میڈیکل ہونا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے کیس میں جھول آگیا ہے۔ فی الحال ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ بچیاں اغوا ہوئیں۔'

 ظفراللہ نے بتایا کہ 2017 میں وہ پتوکی سٹی پولیس تھانے میں ہی تعینات تھے اور اسی ریڈ لائٹ ایریا سے کچھ بچیاں  برآمد کی گئی تھیں، جنہیں ان کے والدین سے خریدا گیا تھا اور انہیں پال پوس کر دھندے پر لگا دیا تھا۔

بقول ظفر اللہ: 'اس وقت ہم نے وہ بچیاں برآمد کر کے انہیں ان کے والدین کے پاس واپس بھیجا تھا۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو والوں سے رابطہ کر کے بچیوں کو قصور کی سیشن عدالت میں جج کے سامنے پیش کر سکوں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان