عراق: فوجی بیس پر ’ایرانی ساختہ‘ 10 راکٹوں سے حملہ، ایک ہلاک

 پوپ فرانسس کے تاریخی دورہ عراق سے دو روز قبل اور کئی ہفتوں سے عراقی سرزمین پر امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران ہونے والے اس حملے میں ایک کنٹریکٹر کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

عین الاسد کے فوجی اڈے پر  امریکی قیادت میں اتحادی فوجی عراق میں داعش کی باقیات کے خلاف جنگ میں مدد میں مصروف ہیں۔(فائل تصویر:اے ایف پی)

سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ مغربی عراق میں بدھ کو ایک فوجی اڈے پر کم ازکم 10 راکٹوں سے حملہ کیا گیا، جہاں امریکی فوج کی قیادت میں اتحادی فوجی موجود ہیں۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پوپ فرانسس کے تاریخی دورہ عراق سے دو روز پہلے اور کئی ہفتوں سے عراقی سرزمین پر امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران ہونے والے اس حملے میں ایک کنٹریکٹر کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

عین الاسد کے فوجی اڈے پر امریکی قیادت میں اتحادی فوجی عراق میں داعش کی باقیات کے خلاف جنگ میں مدد میں مصروف ہیں۔

روئٹرز کے مطابق اتحادی فوج کے ترجمان کرنل وائن ماروٹو نے تصدیق کی ہے کہ صبح سات بج کر 20 منٹ پر 10راکٹ اڈے پر گرے۔

تاہم انہوں نے کسی قسم کے نقصان کی تفصیل نہیں دی۔ عراقی سکیورٹی فورسز نے کہا ہے کہ بدھ کی صبح ’گراڈ قسم‘ کے 10 راکٹ عین الاسد کے اڈے پر گرے تاہم کوئی قابل ذکر نقصان نہیں ہوا۔

ایک اعلیٰ عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک سویلین کنٹریکٹر کا حملے کے دوران دل کے دورے سے انتقال ہوگیا، تاہم وہ ہلاک ہونے والے کی شہریت کے بارے میں تصدیق نہیں کر پائے۔ 

حالیہ ہفتوں میں راکٹ حملوں میں یہ تیسری ایسی ہلاکت ہے۔ اس سے قبل کردستان میں اربیل شہر میں راکٹ حملے میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ 

مغربی ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ یہ ایرانی ساختہ ارش راکٹ تھے، جو 122 ملی میٹر کے آرٹلری راکٹ ہیں، یہ ان راکٹوں سے زیادہ وزنی ہیں، جنہیں عراق میں مغربی اہداف پر کیے گئے دوسرے حملوں میں دیکھا گیا۔

ایک عراقی سکیورٹی ذریعے اور حکومتی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ راکٹ بغداد کے مغرب میں واقع علاقے بیادر سے داغے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2020 میں عراق میں مغربی سکیورٹی، فوجی اور سفارتی مقامات کو درجنوں راکٹ حملوں اور سڑک کے کنارے بم نصب کرکے نشانہ بنایا گیا۔ عراقی اور مغربی فوجی ذرائع نے الزام لگایا ہے کہ ان حملوں میں ایران نواز سخت گیر دھڑے ملوث تھے۔

سخت گیر دھڑوں کے ساتھ جنگ کے دوران اکتوبر میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد حملوں کا سلسلہ مکمل طور بند ہو گیا تھا لیکن گذشتہ تین ہفتے سے زیادہ تیزی کے ساتھ حملے دوبارہ شروع کر دیے گئے ہیں۔

فروری کے وسط میں کرد علاقائی دارالحکومت اربیل میں امریکی قیادت میں اتحادی فوجیوں، دارالحکومت بغداد کے شمال میں کام کرنے والی امریکی فوجی کنٹریکٹر کمپنی اور بغداد میں امریکی سفارت خانے پر راکٹوں سے حملہ کیاگیا تھا۔

دوسری جانب پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ وہ عراق جائیں گے کیونکہ ’لوگوں کو دوسری مرتبہ مایوسی کا شکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

اس سے پہلے 2000 میں پوپ فرانسس کے پیشرو پوپ جان پال کو عراق کے دورے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

پوپ فرانسس جمعے کو عراق کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ انہوں نے لوگوں سے دعا کرنے کے لیے کہا تاکہ ’ان کا دورہ ممکنہ طورپر بہترین انداز میں ہو سکے اور اس کے مطلوبہ نتایج برآمد ہو سکیں۔‘

پوپ فرانسس نے عراق میں اتحادی فوجی اڈے پر ہونے والے راکٹ حملوں کے بعد عراق میں سلامتی کے مسائل کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا