عراق: راکٹ حملے میں غیر ملکی ہلاک، کئی امریکی کنٹریکٹرز زخمی

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ’اس حملے کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔‘

اربیل شہر میں ایئر بیس کے قریب حملے کے بعد دھواں اٹھتے ہوئے (روئٹرز)

عراق کے کردستان میں موجود ائیر بیس پر ہونے والے راکٹ حملوں میں ایک غیر ملکی کنٹریکٹر سمیت پانچ دیگر کنٹریکٹر اور ایک امریکی فوجی زخمی ہو گیا۔ 

امریکی اتحاد کے مطابق یہ حملہ سوموار کی رات کو ہوا۔ یہ دو مہینے میں پہلی دفعہ تھا کہ مغربی فوج یا سفارتی اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ 

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ’اس حملے کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’کئی امریکی کنٹریکٹر زخمی ہوئے ہیں۔‘ تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔ 

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دے رکھی تھی کہ ایسے راکٹ حملوں میں کسی امریکی شہری کی ہلاکت عراق میں بڑے پیمانے پر بمباری کا باعث بنے گی۔

 

عراقی اور مغربی سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر کے ائیرپورٹ کی سمت کم سے کم تین راکٹ فائر کیے گئے، جہاں بین الااقوامی اتحاد کے فوجی داعش سے لڑنے کے لیے موجود ہیں۔ 

اتحاد کے ترجمان کرنل وین ماروٹو نے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے کنٹریکٹر عراقی نہیں تھے تاہم انہوں نے ہلاک ہونے والے فرد کی قومیت کے حوالے سے فوری طور پر کوئی معلومات نہیں دیں۔

سال 2017 میں عراق کے داعش پر فتح کے اعلان کے بعد ملک میں اتحادی فوجیوں کی تعداد کم ہو کر 3500 ہو چکی ہے جن میں 2500 امریکی فوجی ہیں۔ ان میں سے اکثریت اربیل کے فضائی اڈے پر موجود ملٹری کمپلیکس میں مقیم ہیں۔

اس حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف گروہ اولیا الدم یعنی ’خون کے وارثوں‘ نے قبول کی ہے۔ 

گذشتہ ایک سال کے دوران ایسے ایک درجن کے قریب گروپ سامنے آئے ہیں جو امریکی اور عراقی سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ یہ گروپ ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ اور عصائب اہل الحق کے فرنٹس ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اربیل کے محکمہ صحت کے سربراہ دیلوان جلال نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دو راکٹ اربیل کے نواح میں رہائشی علاقے پر گرے ہیں، جن کے نتیجے میں پانچ شہری زخمی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔

کردستان کے علاقے کی وزارت داخلہ نے بھی ’متعدد راکٹ حملوں‘ کی تصدیق کرتے ہوئے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ وزارت داخلہ کے مطابق سکیورٹی اداروں نے اس حوالے سے جامع تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

حملے کے بعد ائیرپورٹ کے قریب سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے میں ہیلی کاپٹرز سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ 

عراقی صدر بہرام صالح نے اپنی ٹویٹ میں ان حملوں کو ’خطرناک قدم اور مجرمانہ حرکت‘ قرار دیا ہے۔

عراقی کردستان کے وزیر اعظم مسرور برزانی نے اس حملے کی بھرپور مذمت کی ہے۔

 اے ایف پی کے مطابق دو مختلف انٹیلی جنس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہ حملے نیم خود مختار کردستان کے علاقے کے اندر سے ہی کیے گئے ہیں۔

سال 2019 کے اواخر سے ہی عراق میں مغربی فوج اور سفارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن میں عراقی شہری اور غیر ملکی افراد دونوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا