دو فرانسیسی پروفیسرز پر اسلامو فوبیا کے الزام پر نیا تنازع

فرانسیسی حکومت نے ایک طالبہ کی جانب سے دو اساتذہ کو ’اسلام مخالف‘ قرار دے کر ان کے خلاف احتجاج کی مذمت کی ہے۔

لندن میں فرانسیسی سفارت خانے کے باہر احتجاج کے دوران  ایک  خاتون اسلامو فوبیا کے حوالے سے بینر اٹھائے کھڑی ہے (اے ایف پی)

فرانسیسی حکومت نے ایک طالبہ کی جانب سے دو اساتذہ کو ’اسلام مخالف‘ قرار دے کر ان کے خلاف احتجاج کی مذمت کی ہے۔

فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ طالبہ کا یہ قدم ان پروفیسرز کی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ گذشتہ ہفتے طلبہ گروپس نے پولیٹیکل سائنس کے شعبے کی دیواروں پر چسپاں کیے جانے والے پوسٹرز میں اساتذہ کو ’فسطائی‘ قرار دیا تھا۔ یو این ای ایف نامی طلبہ یونین اس مہم کی حمایت کر رہی ہے۔

جونیئر وزیر داخلہ میری لین شیپا کا کہنا ہے کہ ان پوسٹرز اور سوشل میڈیا پر کمنٹس نے سکول پروفیسر سموئیل پیٹے کو آن لائن ہراساں کیے جانے کی یاد تازہ کر دی، جن کا گذشتہ سال اکتوبر میں اسلام مخالفت کے الزام میں سر قلم کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پروفیسر پیٹے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد یہ ایک بے باک قدم ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسا ہو رہا ہے۔ ہم ایسی کسی چیز کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘

’جب کسی کو نسل پرست یا تعصب برتنے والا قرار دیا جائے تو ایسے واقعے کو رپورٹ کرنے کے مختلف ادارے ہیں، جو پروفیسر سے بات کر کے ایسا ثابت ہونے پر اقدامات کر سکتے ہیں۔‘

سائنسز پو یونیورسٹی نے، جو مشرقی فرانس میں انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سائنس (آئی ای پی) کے شعبے کی سربراہی کرتی ہے، بھی اس مہم کی مذمت کی ہے جبکہ شعبے نے اس مہم کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔

شعبے کی املاک کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے کے خلاف، ’ہمارے لیکچر ہال میں فاشسٹ ہیں‘ اور ’اسلامو فوبیا قتل کرتا ہے‘ جیسے نعروں اور پوسٹرز آویزاں کرنے کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ 

الزام کا سامنا کرنے والے ایک پروفیسر ’موجودہ فرانس میں اسلام اور مسلمان‘ نامی کورس کے انچارج ہیں جبکہ دوسرے پروفیسر اسی شعبے میں 25 سال سے جرمن زبان پڑھا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرانس میں اسلام، نفرت انگیز تقریر اور سیکولرازم کے حوالے سے جاری تنازعات کے سلسلے میں یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ فرانس میں ریاست کو مذہب کے اثر و رسوخ سے آزاد کروا کر سیکولر بنانے کی ایک طویل اور خونی تاریخ ہے۔

اس کے قوانین بھی توہین مذہب اور مذاہب پر تنقید کی اجازت دیتے ہیں، تاہم کچھ گروہوں کے مطابق یہ قوانین نفرت انگیز تقاریر اور اسلامو فوبیا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

فرانس کے ہائر ایجوکیشن کے وزیر نے حال ہی میں تعلیمی اداروں میں ’اسلامو – لیفٹ ازم‘ کے بارے میں متنبہ کیا تھا، جو ان روایات پر سوال اٹھانے والے بائیں بازو کے سرگرم افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پروفیسر پیٹے کو اپنے سیکنڈری سکول میں آزادی اظہار سے متعلق کلاس کے دوران پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے پر ایک چیچن نژاد نوجوان نے قتل کردیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق سکول کی مذکورہ طالبہ، جس نے آن لائن یہ الزامات عائد کیے تھے کہ مذکورہ خاکے دکھائے جانے کے وقت مسلمانوں کو کمرے سے باہر جانے کو کہا گیا تھا، نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ کلاس میں نہیں تھیں۔

فرانسیسی پارلیمنٹ میں زیرغور نئے سخت حفاظتی قانون کے تحت کسی سرکاری ملازم کے بارے میں ذاتی معلومات شائع کرنے کی صورت میں، جس کے نتیجے میں انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے، تین سال تک قید کی سزا ہوگی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا