زمین کا تنازع: وانا میں زلی خیل اور دوتانی قبیلے دو ماہ سے مورچہ زن

وانا میں دو قبیلوں کے جھگڑے کے باعث کاروبار رک گیا ہے، جبکہ تعلیم اور صحت کے ادارے کئی دنوں سے بند ہیں۔

دو قبیلے زلی خیل اور دوتانی کے مابین دو ماہ سے مورچہ زن ہیں(تصاویر:روفان خان)

خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا میں زمین کے تنازع پر زلی خیل اور دوتانی قبیلے کے مسلح افراد دو ماہ سے مورچہ زن ہیں، جن کی جھڑپ میں دو گاڑیوں کو آگ بھی لگائی گئی۔

وانا کے آل سیاسی پارٹی اتحاد کے صدر اور زلی خیل قبیلے کے مشر آیاز وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ زمین کا معاملہ دو قبیلوں زلی خیل اور دوتانی کے مابین انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے اور اس کے حل کے لیے کئی بار جرگے ہوئے ہیں مگر تاحال معاملہ حل نہ ہو سکا۔

 ان کا کہنا تھا کہ دونوں قبیلوں کے مابین کئی بار لڑائیاں ہوئی ہیں اور دونوں قبیلوں کو جانی و مالی نقصان پہنچا ہے۔ ان کے مطابق تقریباً چار افراد ہلاک جبکہ دس گیارہ افراد زخمی ہوئے ہیں اور ان جھگڑوں کی وجہ سے تحصیل وانا میں کاروباری نظام درہم برہم ہے، تعلیم اور صحت کے ادارے کئی دنوں سے بند ہیں۔

آیاز وزیر کا کہنا تھا کہ زلی خیل قبیلے نے گاڑیوں کو اس لیے آگ لگادی کہ اس سے پہلے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ کوئی بھی شخص دوسرے قبیلے کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔

ان کے بقول تین افراد دو گاڑیوں کے ذریعے دوتانی قبیلے کو اسلحہ سپلائی کر رہے تھے کہ زلی خیل قبیلے کے مشران نے انہیں پکڑا، گاڑیوں کو آگ لگادی اور اسلحے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آیاز وزیر نے کہا: ’زلی خیل قبیلہ شروع دن سے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے اور روز اول سے یہی موقف رہا ہے کہ انگریز کی کتاب کے مطابق حد بندی کی جائے لیکن کافی کوششںوں کے باوجود حدبندی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔‘

دوسری جانب دوتانی قبیلے کے مشر صوبت خان دوتانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دوتانی  قبیلہ مظلوم ہے، اس نے ہمیشہ امن کا راستہ اپنایا ہے اور وزیر قبیلے نے حدیں پار کی ہیں، لیکن دوتانی قبیلے نے پرامن رہنے کی کوشش کی ہے۔‘

ان کے مطابق اراضی کا مسئلہ دو جگہوں پر ہے، سوئی اور کرکنڑہ۔ ’ہمارا مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے کیوںکہ وزیر قبیلہ وانا کی مثل پر حل کرنا چاہتا ہے لیکن دوتانی قبیلہ پشاور اور کوہاٹ کی مثل پر تنازع حل کرنا چاہتا ہے۔‘

ان کا مزیدکہنا تھا: ’وانا کی مثل کی مخالفت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ وانا کی مثل میں طرف داری ہوئی ہے اور پشاور اور کوہاٹ کی مثل انگریزوں کی کتاب سے بنائی ہوئی مثل ہے۔ ہم دو ماہ سے مسلسل مورچہ زن ہیں۔‘

مقامی صحافی جلال مسعود کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام کے باوجود اسلحے کا استعمال قانون کو چیلنج کرنا ہے۔ انہوں نے کہا: ’دوماہ سے مسلسل اسلحے کا استعمال ہورہا ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور پولیس حرکت میں نہیں آتی۔ اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے کالا قانون تھا لیکن اب تو سارا نظام رائج ہوا ہے، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو طاقت دی گئی ہے، مگر اس طاقت کا استعمال نہیں کیا جارہا۔‘

ان کے بقول: ’ضلعی انتظامیہ اور پولیس اگر چاہے تو مسئلہ حل کرسکتی ہے۔‘

وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے نصیراللہ وزیر کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ دونوں قبیلوں میں جنگ کی فضا ہو۔ ’ہم مزید جنگ اور لڑائی نہیں چاہتے۔ تنازع افہام و تفہیم کے ذریعے حل کریں گے۔ جب تک مسئلہ حل نہیں کیا جاتا میری کوششیں جاری رہیں گی۔ مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے سے گریز نہیں کریں گے۔‘

دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شوکت علی کا کہنا تھا کہ دونوں قبیلوں کے مابین جاری معاملہ آخری مرحلے میں تھا مگر انگریز کی مثل پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے معاہدے پر دستخط نہ ہوسکے۔

انہوں نے بتایا کہ تحصیل وانا میں دفعہ 144نافذ ہے اور اگر دونوں قبیلوں کے مابین مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو پولیس مجبوراً حرکت میں آئے گی اور دونوں قبیلوں کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی۔

واضح رہے کہ دوماہ مکمل ہونے کو ہیں  کہ دونوں قبیلے مورچہ زن ہیں اور ہر روز دونوں قبیلوں کے مابین فائرنگ اور لڑائی ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان