اسی نوے والی سیاست دوبارہ نہیں دیکھنی

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پہ ایکشن، سسپنس، تھرلر اور گندی زبان سے مزین فلم کا ری میک بن رہا ہے۔ اس میں عشق معشوقی، ساتھ نبھانے کی قسمیں وعدے، روٹھنا منانا ہے، دغا دینے کا ٹوئسٹ ہے اور راستے بدل لینے والا کلائمیکس۔۔۔ وہ تو ہر کچھ وقفے بعد آ ہی جاتا ہے۔

(اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


’پھر دوریاں بڑھ رہی ہیں، دبے دبے لہجے میں الفاظ کے نشتر طنز کے زہر میں بجھا کر مارے جا رہے ہیں۔

جوتے اچھل رہے ہیں، گالیوں کے دور چل رہے۔

پارلیمنٹ کے بالکل سامنے ٹھڈے پڑ رہے ہیں، منہ کالے ہو رہے ہیں۔

خفیہ ویڈیوز جاری ہو رہی ہیں، کہیں خفیہ کیمروں سے عکس بندی کا انتظام ہے۔

ایک سیاست دان خاتون کو ’سمیش‘ کر دینے کی کالز آ رہی ہیں پھر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پہ ایکشن، سسپنس، تھرلر اور گندی زبان سے مزین فلم کا ری میک بن رہا ہے۔ اس میں عشق معشوقی، ساتھ نبھانے کی قسمیں وعدے، روٹھنا منانا ہے، دغا دینے کا ٹوئسٹ ہے اور راستے بدل لینے والا کلائمیکس۔۔۔ وہ تو ہر کچھ وقفے بعد آ ہی جاتا ہے۔

 اس فلم کی انوکھی بات یہ ہے کہ فلم بندی اور ریلیز ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے اس لیے ہر دن  لطف بڑھانے کو نیا سین تیار ہوتا ہے۔

زیادہ تر اداکار ماضی میں بھی مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔ کچھ ان کی اولادیں ہیں، عوام کی تفریح طبع کے لیے بہت سے نئے چہرے متعارف کرائے گئے ہیں جو کہ ہر گزرتے منظر کے ساتھ مزید بہتر پرفامنس دے رہے ہیں، تالیاں، سیٹیاں اور داد سمیٹ رہے ہیں۔

البتہ ہدایت کار نے بیرون ملک سے بلا کر فلم میں کچھ گیسٹ  اداکار بھی فٹ کیے ہیں جنہیں منہ پہ کالک ملوانے جیسے چھوٹے اور مختصر کردار دیئے گئے ہیں۔ کچھ ہیں جو ایکشن اور کچھ صرف لطیفے یا شوشے بازی کے لیے مخصوص ہیں۔‘

میں لہک لہک کر چچا گیرو کو اپنا مضمون سنا رہی تھی اور امید یہی تھی کہ استعاروں کے استعمال پہ خوب واہ واہ ملے گی۔

چچا گیرو نے یہ کہہ کر ساری تحریر مسترد کر دی کہ ’بی بی تمھاری تحریروں میں نشانہ سیاست دان ہی ہوتے ہیں۔‘

میرے پاس دلائل کا انبار، الفاظ کا ذخیرہ تھا اور یہ امتیازی نمبر  بھی تھے کہ میں کسی سیاسی جماعت کی کارکن نہیں۔ چچا گیرو ایک دل جلے ن لیگی ہیں اور بس۔

میں نے جھٹ سے وہی روایتی لائن پکڑ لی ’ کیوں بھئی بھول گئے بےنظیر کو ٹی۔۔۔ کس نے کہا؟ یہ عورت یہ عورت کہہ کر غدار وطن ہونے کے طعنے  کون دیتا تھا؟ کون ضیا الحق کو مرد مومن اور بھٹو کو جعلی شہید قرار دیتا تھا؟‘

چچا گیرو نے بھی روایتی سوال کا ٹکا سا جواب تھما دیا۔ ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس دور سیاست سے اب بہت آگے نکل آئی ہیں۔  ماضی کے رکیک جملوں اور ذاتی حملوں کو دہرانے کا حاصل کچھ نہیں۔ حال کا احوال یہ ہے کہ مریم اور بلاول اب پاکستانی سیاست میں بڑی بہن اور چھوٹے بھائی کی نئی جوڑی ہے۔ کوئی اور بات کرو۔‘

میں نے کہا ’ کوئی اور بات؟ اچھا چلیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا شیرازہ بکھرتے تو دیکھ رہے ہیں اب یہ شرط بھی لگا لیں کہ یہی مریم اور یہی بلاول اگر سیاسی اختلافات کا شکار ہوئے، تلخیاں بڑھیں اور راستے جدا ہوئے تو پھر سے الزامات کی اسی ڈگر پہ چل پڑیں گے جہاں 2018 کے الیکشن سے پہلے تھے۔‘

یہاں چچا گیرو گڑ بڑا گئے۔ اچانک  شوگر کی بیماری کا ذکر چھیڑا اور ایمرجنسی میں فون رکھ دیا۔

سیاست تو ساری دنیا میں ہی زبان درازی، الزام تراشی، پوائنٹ سکورنگ کے گرد گھومتی ہے۔ مخالفین کی خفیہ ویڈیوز کا سٹاک سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے بعض سکینڈل خاص وقت پہ جاری کر کے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ سب سیاسی منصوبہ بندی کا حصہ ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں یہ کلچر تہذیب کے حدوں سے باہر بلکہ پرتشدد حد تک ہوا۔ ستر میں ضیا نے کوڑے مارنے کا سرکس لگا رکھا تھا سو اس کا ذکر ہی کیا۔ البتہ گندی سیاست کے جتنے لچھن تھے  انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں وہ سارے ہی آزما لیے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دوسرے پر غداری کے الزامات، ذاتی حملے، جلسوں میں لعنتیں اور کردار پہ کیچڑ اچھالنا یہ سب تو ماضی کی طرح اب بھی ہو ہی رہا تھا تاہم اب سیاست میں جوتا کھینچ کر مارنے، سارا دن سوشل میڈیا پر فحش گالیوں کے ٹرینڈ در ٹرینڈ چلانے   اور سیاہی سے منہ پہ کالک تھوپنے کا اضافہ ہوا ہے۔

اب زبانی کلامی سڑکوں پہ گھسیٹنے کے سیاسی دعوے نہیں  ہو رہے، اب سیاست سر سے چادریں کھینچنے، تھپڑ رسید کرنے اور  لاتیں مارنے تک آن پہنچی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی کرداروں کو ہدایات جاری ہونے کا سلسلہ تو سمجھ آتا ہے مگر یہ گالیاں دینے پہ بھی کیا کوئی مجبور کرتا ہے؟

کیا سیاست دانوں کو یہ تربیت بھی زبردستی دی جاتی ہے کہ سیاسی کارکنوں کے نام پہ غنڈہ گرد طبیعت کے بےلگام جتھے کیسے تیار کرنے ہیں؟

اللہ جانے یہ سیاست میں غلاظت پھیلانے کا آئیڈیا کس کا ہوتا ہے لیکن بدنام آخر کو سیاست دان ہی ہوتا ہے، ڈائریکٹر پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہدایات جاری کرے یا نہ کرے مگر عوام کے سامنے منہ اسی سیاست دان کو دکھانا ہوتا ہے۔

چچا گیرو کی طرح بہت سوں کو شکوہ ہوگا کہ ’برق گرتی ہے تو بیچارے سیاست دانوں پر۔‘ مگر ایک وہی تو ہیں جنہیں ہم سنا سکتے ہیں ورنہ آمریت کہاں عوامی گزارشات اور مطالبات  سننے کی روادار ہوا کرتی ہے۔

اب جبکہ پی ڈی ایم میں بھی منزل ایک مگر راستے جدا ہونے کا آغاز ہوگیا ہے ایسے میں تمام سیاست دانوں، رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں سے یہ دست بستہ گزارش ہے کہ لوگ اسی اور نوے کی دہائی والی سیاست سے اکتائے ہوئے ہیں۔ سینیٹ الیکشن پہلے ہی لٹیا ڈبو چکا ہے، اس لیے اب سیاست کے منہ پہ مزید کالک نہ ملیے گا۔ بڑی مہربانی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ