’لاپتہ نواسے کی راہ تکتی نانی سوکھ کر ہڈیاں ہو گئی‘

کوئٹہ سے لاپتہ ہونے والے درزی جہانزیب محمد حسنی کی والدہ گل سما نے اپنے بیٹے کی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

کوئٹہ سے لاپتہ ہونے والے درزی جہانزیب محمد حسنی کی والدہ گل سما نے اپنے بیٹے کی جلد بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

وہ پیر کو کراچی پریس کلب پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام ’نیشنل مسنگ پرسنز کنوینشن‘ میں شرکت کرنے خصوصی طور پر کوئٹہ سے کراچی آئیں۔

کنوینشن میں بلوچ، سندھی، شیعہ، پشتون اور مہاجر لاپتہ افراد کے گھر والوں نے بھی شرکت کی۔ 

تین بیٹیوں اور چار بیٹوں کی والدہ اور بیوہ گل سما کے مطابق چند سال پہلے انہوں نے ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسن‘ کے ساتھ اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تھا مگر اتنے طویل لانگ مارچ کے باوجود ان کے بیٹا واپس نہیں آیا۔  

’میں آج کراچی آئی ہوں تو گھر والے اور بچے خوش تھے کہ امی کراچی سے واپسی پر جہانزیب کو ساتھ لے کر آئیں گی۔ ہر وقت اتنی امیدیں لگی رہتی ہیں، اب میرے بیٹے کو واپس بھیجیں، میں درخواست کرتی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا ’میری عمر رسیدہ والدہ اپنے نواسے کے غم میں سوکھ کر ہڈیاں ہو گئی ہے۔ ان کی آنکھیں ہر وقت راستے پر لگی رہتی ہیں کہ کب ان کا نواسہ واپس آئے گا۔‘

60 سالہ گل سما کے مطابق ’تین مئی، 2016 کی رات 10 سے 20 گاڑیوں میں اہلکار آئے اور سیڑھی رکھ کر گھر میں گھس آئے۔ وہ جہانزیب کو ہاتھ سے پکڑ کر آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہمارے سامنے لے گئے۔‘

’جہانزیب نے اس وقت قمیض اور چپل بھی نہیں پہنی تھی، ہمیں کہا گیا کہ ایک گھنٹے میں واپس لائیں گے مگر آج پانچ سال ہوگئے، ان کا کچھ پتہ نہیں۔‘

’جب جہانزیب کو لے کر گئے تو اس وقت ان کی بیٹی چھ ماہ کی تھی، اب ساڑھے پانچ سال کی ہے، جس نے اپنے ابو کی شکل بھی نہیں دیکھی، گھر میں ہر وقت ماتم رہتا ہے۔‘

بلوچستان سے ’زبردستی گمشدہ‘ کیے جانے افراد کی خبریں اکثر رپورٹ ہوتی رہتی ہیں مگر سرکاری طور پر کوئی بھی اعداد و شمار نہیں کہ اب تک کتنے لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے شہرت پانے والے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق حالیہ مہینوں میں چند لاپتہ افراد واپس آئے ہیں مگر ان کے بقول جتنے واپس آتے ہیں، اس سے زیادہ لاپتہ ہوجاتے ہیں۔

19 ستمبر، 2019  کو کراچی سے لاپتہ ہونے والے ابرار احمد رضوی کی اہلیہ فرح ابرار نے، جو کنوینشن میں شریک تھیں، انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’جس طرح اہلکار ہمارے گھر میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے داخل ہوئے اور میرے شوہر کو لے گئے، اس کے بعد مالک مکان نے بھی گھر خالی کرا لیا۔‘

’میرے شوہر کی گمشدگی کے سات ماہ بعد میری بیٹی پیدا ہوئی، جو اب ایک سال کی ہوگئی ہے، اس نے آج تک اپنے بابا کو نہیں دیکھا۔

’میری اپنے شوہر سے ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی، یہ تک نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان