لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کرنے والے استاد خود لاپتہ 

پاکستان کے صوبہ سندھ سے گذشتہ کچھ عرصے سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین کے ساتھ کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے  یونیورسٹی استاد سارنگ جویو خود لاپتہ ہوگئے ہیں۔ 

پینتیس سالہ سارنگ جویو سندھ کے نامور ادیب اور قوم پرست رہنما تاج جویو کے صاحبزادے اور دو بیٹیوں کے والد ہیں (تصویر: سوہنی جویو)

پاکستان کے صوبہ سندھ سے گذشتہ کچھ عرصے سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین کے ساتھ کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے  یونیورسٹی استاد سارنگ جویو خود لاپتہ ہوگئے ہیں۔ 

پینتیس سالہ سارنگ جویو سندھ کے نامور ادیب اور قوم پرست رہنما تاج جویو کے صاحبزادے اور دو بیٹیوں کے والد ہیں۔ وہ زیبیسٹ یونیورسٹی کراچی کے سندھ ابھیاس اکیڈمی شعبے میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔     

سارنگ جویو کی اہلیہ سوہنی جویو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ رات ڈیڑھ بجے کے قریب سادہ کپڑوں میں کچھ افراد نے وردی والے اہلکاروں کے ساتھ کراچی کے علاقے اختر کالونی میں واقع ہماری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا۔ دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھسے۔ پورے گھر کی تلاشی لینے کے بعد وہ لوگ میرے شوہر سارنگ کو اپنے ساتھ لے گئے اور ساتھ میں سارنگ کا آفیس بیگ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائیل فون اور گھر میں رکھی بہت سی ادبی کتابیں بھی ساتھ لے گئے۔‘ 

گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کئی ماہ سے جاری احتجاج میں سارنگ جویو کے ساتھ سوہنی جویو بھی شریک رہی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ’سارنگ کا قصور کیا تھا؟ یہ کہ وہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے پُرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے؟ سارنگ کے والد تاج جویو بھی ان احتجاجی مظاہروں میں ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ تاج جویو ایک سیاسی کارکن ہیں تو ان کے بیٹے (سارنگ جویو) کیوں سیاست نہیں کریں گے۔ ہم سندھ کے حقوق کی بات با آواز بلند کرتے رہیں گے، ریاست جبری گمشدگیوں والے ہتھکنڈوں سے ہماری آواز دبا نہیں سکتی۔‘ 

سوہنی جویو کے مطابق سارنگ جویو کی بازیابی کے لیے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گی اور عدالت میں ایک پٹیشن داخل کروا رہی ہیں۔  

سارنگ جویو کی گمشدگی کے بعد سندھ سے جبری لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ اور سندھ سبھا کی جانب سے کراچی، حیدرآباد، مورو اور سندھ کے دیگر شہروں میں منگل سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔  

سندھ سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سبھا اور سندھ سجاگی فورم کی جانب سے کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج جاری ہے جس میں گمشدہ افراد کے لواحقین، کے ساتھ ان تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ سارنگ جویو، ان کی اہلیہ سوہنی جویو اور والد تاج جویو بھی مسلسل شرکت کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس احتجاج کے دوران پہلے 50 دن تک احتجاجی کیمپ لگایا گیا، بعد میں 52 گھنٹوں کی بھوک ہڑتال کے بعد عید والے دن بھی احتجاج جاری رکھا گیا جو اب تک جاری ہے۔  

وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی کنوینر سسئی لوہار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ سارنگ جویو جیسے سرگرم پرامن سیاسی کارکنان کو گرفتار کرکے اور جبری لاپتا کرکے یہ ریاست سندھ کی پرامن سیاسی آواز کو دبانے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔‘ 

’سندھ بھر سے جبری طور لاپتا کیے گئے سینکڑوں کارکنان کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والے رہنما سارنگ جویو کو بھی گذشتہ رات اپنے گھر سے گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کر دیا۔ سارنگ جویو سندھی مسنگ پرسنز اور سندھ کی سیاسی جدوجہد کے ایک مضبوط آواز بنے ہوئے تھے۔ جو سندھ سجاگی فورم کے پلیٹ فارم سے سندھ کے تمام سیاسی سماجی مسائل کے لیے اپنی پرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔‘  

ایک سوال کے جواب میں سسئی لوہار نے کہا اب تک سندھ سے 70 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ ’کبھی کبھی کچھ افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے مگر ساتھ میں ان سے دگنے لوگوں کو پھر لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ ہم پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ سارنگ جویو سمیت، ملک بھر سے لاپتہ کئے گئے تمام افراد کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان