ادریس خٹک سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں: رپورٹ

انسانی حقوق کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ادریس خٹک کی گمشدگی سے متعلق ایک رپورٹ لاپتہ افراد کمیشن کو موصول ہو ئی ہے جو دفتر خارجہ میں جمع کروا دی گئی ہے۔

گذشتہ ہفتے کراچی پریس کلب کے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ادریس خٹک کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا تھا (@JanBulediNP)

انسانی حقوق کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ادریس خٹک کی گمشدگی سے متعلق ایک رپورٹ لاپتہ افراد کمیشن کو موصول ہو ئی ہے جو دفتر خارجہ میں جمع کروا دی گئی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کہتی ہیں کہ وہ رپورٹ جمع ہونے کے حوالے سے متعلقہ محکمے سے تصدیق کر کے ہی بتا سکیں گی۔

صوابی ٹول پلازہ کے پاس گذشتہ برس نومبر میں ادریس خٹک اور ان کے ڈرائیور کو سادہ لباس میں افراد نے روکا تھا اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے گئے تھے۔

واقعے کے دو روز بعد ادریس خٹک کے ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا تھا جنہوں تھانے میں اغوا کی رپورٹ بھی درج کرائی اور بعد ازاں ادریس خٹک کے اہل خانہ کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں عبد الطیف ایڈوکیٹ کے ذریعے گمشدگی کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔ ان کی اس طویل گمشدگی کے بعد ان کے زندہ ہونے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ لیکن اب بظاہر اس تصدیق سے ان کے اہل خانہ کو تسلی ہوئی ہوگی۔

مسنگ پرسن کمیشن کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق ادریس خٹک سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی جاری ہے۔

ادریس خٹک کے وکیل عبد الطیف آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 12 جون کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کے پاس مقدمے کی سماعت ہوئی تھی، جس میں وزارت دفاع کے حکام نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد رپورٹ جمع کروا دیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی تک انہوں نے رپورٹ نہیں دیکھی اور نہ ان کو موصول ہوئی ہے۔

تاہم اُن کو کسی سے معلوم ہوا ہے کہ وہ متعلقہ اداروں کی تحویل میں ہیں جن کو شک ہے کہ ’ادریس خٹک نے روس کے ساتھ پاکستان کے کوئی راز شئیر کیے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر ایسا ہے بھی تو یہ ایک مشتبہ کیس ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت بین لاقوامی تنظمیوں نے ادریس خٹک کی گمشدگی کا معاملہ حکومت پاکستان کے ساتھ اٹھایا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ یہ جبری گمشدگی ہے، حکومت اس کا جواب دے۔

یہی وجہ ہے کہ رپورٹ کی کاپی دفتر خارجہ میں بھی جمع کرائی گئی ہے۔

گذشتہ ہفتے کراچی پریس کلب کے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ادریس خٹک کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ آٹھ ماہ سے ادریس خٹک کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ اگر ان پر کوئی جرم ثابت ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

ادریس خٹک کی بیٹی طالیہ خٹک نے چند روز قبل اپنے والد کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی چلایا تھا۔

ادریس خٹک کون ہیں؟

ادریس خٹک کا تعلق اکوڑہ خٹک سے ہے اور وہ عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما بھی رہے ہیں۔

انہوں نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔

ان کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ سابق فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئےافراد رہے ہیں جبکہ وہ فعال سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان