'ہم والد کی تصویریں تھامے بڑے ہوگئے، وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں'

جون 2009 میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے ڈاکٹر دین محمد کی بیٹیاں کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے کیمپ میں ہمیشہ دکھائی دیتی ہیں، وہ اُس وقت سے اس احتجاج میں شریک ہیں جب ان کی عمریں آٹھ اور دس برس تھیں۔

نومبر 2013  کی اس تصویر میں بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ لانگ مارچ میں شریک ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں 11 سال سے زیادہ عرصے سے لاپتہ افراد کے خاندان کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے کیمپ میں جمع ہوتے ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے پیاروں کو کون اٹھا کر لے گیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ان احتجاجی دھرنوں کا آغاز 28 جون 2009 کو اس وقت ہوا جب ایک ڈاکٹر دین محمد کو ’نامعلوم افراد‘ نے اغوا کر لیا تھا۔

ان کے رشتہ داروں کو شبہ ہے کہ دین محمد کو بھی بہت سے دیگر لاپتہ بلوچوں کی طرح علیحدگی پسندی کی حمایت کے شبہ میں غائب کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند کئی دہائیوں سے زیادہ عرصے سے خودمختاری کی مہم چلا رہے ہیں۔

کوئٹہ پریس کلب کے باہر اس احتجاجی کیمپ میں کبھی زیادہ افراد شرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات ایک درجن سے بھی کم افراد یہاں نظر آتے ہیں، تاہم ڈاکٹر محمد دین کی دو بیٹیاں ہمیشہ اس دھرنے میں دکھائی دیتی ہیں جو اُس وقت سے اس احتجاج میں شریک ہیں جب ان کی عمریں آٹھ اور دس برس تھیں۔

ان میں سے ایک بہن سامی بلوچ، جو اب 21 سال کی ہو گئی ہیں، نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اپنے والد کی تصویروں کو تھامے ہوئے اب بڑے ہو چکے ہیں لیکن ہم اب تک یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔‘

جب کوئٹہ میں موسم ناقابل برداشت حد تک سخت ہو جاتا ہے تو یہ بلوچ خاندان پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاجی کیمپ لگا لیتے ہیں۔

افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل بہت ہی کم آبادی والے بیابان پہاڑی اور صحرائی علاقوں پر مشتمل بلوچستان میں جاری شورش میں کبھی اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے اور کبھی کئی سالوں تک یہاں خاموشی چھائی رہتی ہے۔

لیکن بلوچ علیحدگی پسندوں کی کارروئیاں نے شاذ و نادر ہی بین الاقوامی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے، تاہم گذشتہ ماہ جون کے آخر میں جب بلوچ عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملہ کیا تو یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا کی سرخیوں میں سامنے آئی تھی۔

منگل کو بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں تین فوجی ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔

ہلاکتوں کی تعداد بتانے کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کم ہی اس تنازع سے پردہ اٹھاتی ہے اور غیر ملکی صحافیوں کو اکثر بلوچستان کے دورے کی خواہش کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

پاکستان کی وزارت، فوج اور بلوچستان کی صوبائی حکومت متعدد فون کالز کے باوجود اس مسٔلے پر کم ہی لب کشائی کرتی ہے۔

پاکستانی فوج نے گذشتہ سال لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان میں سے کچھ افراد عسکریت پسند گروپوں میں شامل ہو چکے ہیں اور ہر لاپتہ فرد کے پیچھے ریاست کا ہاتھ نہیں ہے۔

پاکستان بار بار بھارت پر الزام لگاتا آیا ہے کہ وہ بلوچستان میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا دے رہا ہے جب کہ نئی دہلی  کی جانب سے اس الزام کی مسلسل تردید کی جاتی ہے۔

گذشتہ ماہ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے وزیر اعظم عمران خان کے پارلیمانی اتحاد کو یہ کہہ کر خیر باد کہہ دیا تھا کہ وہ لاپتہ بلوچوں کے مسئلے سمیت دیگر شکایات کو دور کرنے کے ادھورے وعدوں سے مایوس ہو گئے ہیں۔

جب دو سال قبل بی این پی حکومتی اتحاد میں شامل ہوئی تھی تو اس جماعت کے رہنما اختر مینگل نے حکومت کو پانچ ہزار 128 لاپتہ افراد کی فہرست دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد اس فہرست میں شامل 450 سے زیادہ افراد اپنے گھروں کو لوٹ آئے لیکن اسی عرصے کے دوران اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ مزید 18 سو افراد لاپتہ کر دیے گئے۔

اختر مینگل نے کہا تھا: ’اگر آپ لوگوں کو بازیاب نہیں کرسکتے تو کم از کم مزید لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے روئٹرز کو بتایا کہ لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے، تاہم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنما ماما قدیر کے مطابق یہ تعداد حقیقی ہے۔

انہوں نے روئٹرز کو ٹیلیفون پر بتایا: ’گذشتہ چھ ماہ کے دوران لاپتہ بلوچ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘

لاپتہ افراد کے لیے برسوں سے تحریک چلانے والے ماما قدیر کا اپنا بیٹا ایک دہائی قبل لاپتہ ہوگیا تھا۔

پچھلے سال فروری میں ماما قدیر کے گروپ نے 500 لاپتہ افراد کی ایک فہرست صوبائی عہدیداروں کے حوالے کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 300 افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں لیکن اس گروپ کے مطابق رواں سال 87 مزید افراد لاپتہ ہوگئے ہیں۔

نو سال قبل تشکیل دیئے گئے ایک وفاقی کمیشن نے 2019 کے آخر تک ملک بھر میں لاپتہ ہونے والوں کے چھ ہزار 506 کیسز درج کیے تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے تھا جب کہ محض 472 کیسز بلوچستان سے رجسٹرڈ تھے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ کمیشن کو بلوچستان میں مقدمات درج کرانے میں دشواری کا سامنا ہے جہاں لاپتہ افراد کی حقیقی تعداد کمیشن میں بتائی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان