مودی کا عمران خان کوخط: ’بھارت خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے‘

مودی نے اپنے خط میں پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ پڑوسی ہونے کی حیثیت سے بھارت پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی (اے ایف پی)

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کو کہا ہے کہ ان کا ملک پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔

نریندر مودی نے یہ بات یوم پاکستان کے موقعے پر وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے ایک خط میں کہی۔ ’یوم پاکستان کے موقعے پر میں پاکستان کے عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘

انہوں نے پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’پڑوسی ہونے کی حیثیت سے بھارت پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔‘

نریندر مودی کے علاوہ بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے علیحدہ سے ایک خط اپنی پاکستانی ہم منصب ڈاکٹر عارف علویٰ کو بھیجا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر ترجمان دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ بھارتی وزیراعظم اور صدر نے یوم پاکستان کے موقعے پر تہنیتی پیغام بھجوایا ہے۔

نریندر مودی نے اپنے خط میں وزیراعظم پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ انسانیت کے لیے اس مشکل وقت میں میں کووڈ 19 سے لڑنے والے پاکستانی عوام اور آپ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔

بھارتی صدر و وزیراعظم کا یہ تہنیتی پیغام نئی دہلی نے اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمیشن کو بھجوایا، جس کے حکام نے کوورنگ لیٹر کے ساتھ سربمہر لفافے میں اسے پاکستانی وزارت خارجہ کے حوالے کیا۔

خیال رہے کہ 30 جولائی، 2018 کو عمران خان کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی نے انہیں مبارک باد کا ٹیلی فون کیا تھا۔

اس ٹیلی فونک گفتگو میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ باہمی معاملات آگے بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

مئی 2019 میں نریندر مودی کے انتخابات جیتنے اور دوبارہ وزیراعظم منتخب ہونے پر عمران خان نے انہیں مبارک باد کا ٹیلی فون کیا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بحالی کی جانب یہ تازہ ترین قدم ہے۔ گذشتہ ماہ دونوں ملکوں کے فوج سربراہان کے درمیان 2003 کے سیز فائر معاہدے کی پابندی کرنے اعادہ کیا گیا تھا۔

اسی طرح گذشتہ ہفتے وزیراعظم عمران کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی خبر پر نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر انہیں نیک تمناؤں پر مبنی پیغام بھیجا تھا۔ اسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان مارچ 23، 24 کو آبی مذاکرات ہو رہے ہیں۔

سفارتی سطح پر ان تمام معاملات کو دونوں ممالک کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ سفارتی ماہرین کے مطابق ان مثبت اقدام میں متحدہ عرب امارات کا کردار ہے تاکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان جاری چپقلش کم ہو سکے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے 26 فروری کو بھارت کا دورہ کیا تھا اور اپنے ہم منصب جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ خطے کی صورت حال پر بھی بات چیت کی گئی۔

25 فروری کو پاکستان بھارت ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پہ رابطے کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا کہ دونوں ممالک 2003 سیز فائر معاہدے کی پابندی کریں گے۔ 27 فروری کی صبح وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر تائیدی ٹویٹ کی اور کہا کہ وہ اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس

اعلیٰ سفارتی حکام کا کہنا ہے دوشنبے میں 30 مارچ کو ہارٹ آف ایشیا وزرائے خارجہ سطح کی کانفرنس ہے۔ پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ممکنہ ملاقات سمت کا تعین کر دے گی کہ پاکستان بھارت تعلقات کس طرف جائیں گے۔ 

ایک اعلیٰ سفارتی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہاں صرف متحدہ عرب امارات کا کردار نہیں بلکہ امریکہ کا کردار بھی کسی حد تک ہے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف بھی بیک ڈور رابطوں میں فعال رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا لیکن مسئلہ گھوم کر پھر وہیں پہ آ جائے گا کہ مذاکرات کر کے کیا حاصل کرنا ہے کیونکہ کشمیر پاکستان کا نکتۂ ارتکاز ہے۔ بھارت تو پہلے بھی یہی چاہتا ہے کہ پہلے دوستی کریں، مسئلے بعد میں خود حل ہو جائیں گے، لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ پہلے دیرینہ مسئلہ حل ہو، پھر دوستی کریں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو گا کہ پانچ اگست کے بعد کی صورت حال سے مذاکرات شروع ہوں گے یا پانچ اگست سے پہلے۔ اس سارے معاملے میں بنیادی سٹیک ہولڈر کشمیری ہیں اس لیے انہیں شامل کیے بغیر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ 

سابق سفارت کار کیا کہتے ہیں؟ 

سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے بتایا کہ ’دونوں ممالک سیز فائر کے لیے راضی ہو گئے ہیں اور ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے لیکن سوالات یہ ابھرتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے روڈ میپ کیا ہو گا اور تعلقات کی بحالی کے لیے پاکستان کو کیا قیمت دینی پڑے گی؟ 

انہوں نے کہا کہ جب فریم ورک بنے گا تو بھارت سخت پوزیشن لے گا اور پاکستان سے رعایت مانگے گا۔ یہ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے جتنا نظر آ رہا ہے کیونکہ بھارت کشمیر پر بات نہیں کرے گا تو معاملہ پھر آگے کیسے بڑھے گا۔ 

ایک اور سابق سفارت کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان بھارت مذاکرات ہوتے ہیں تو ہو سکتا ہے سر کریک اور سیاچین کے معاملات طے پا جائیں، لیکن کشمیر پہ کوئی بات ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ 

انہوں نے کہا کہ جب وہ سروس میں تھے تو 2014 میں سر کریک والا فریم ورک بنایا گیا تھا لیکن بعد ازاں اس پر عمل نہیں ہوا۔ سر کریک میں درمیان میں بارڈر لائن بنا کر علاقہ طے کر لیا جائے گا جبکہ سیاچین میں بھارتی افواج 1984 کی پوزیشن پر واپس چلی جائیں اوردرمیان والا علاقہ گرین ایریا یا پیس ایریا کہلائے گا۔ 

انہوں نے کہا لیکن یہ سر کریک اور سیاچین فریم ورک کشمیر کی پانچ اگست کی پہلے والی پوزیشن پر قابل عمل تھا اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب اگر بھارت اس فریم ورک کو اپنائے گا تو کشمیر پر سوال اٹھے گا۔ اگر بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت پانچ اگست 2019 سے پہلے والی کر دے تو پھر سر کریک سیاچین فریم ورک مذاکرات کے لیے قابل عمل ہے۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان کے تعلقات اگر امن کی جانب رواں دواں ہیں تو دونوں ممالک کے ہائی کمشنروں کی اپنے سٹیشنوں پر واپسی کب ہو گی؟ 

اس وقت دونوں ممالک کے ہائی کمیشن میں عملے کی تعداد 55 ہے۔ گذشتہ برس جون میں بھارت نے عملہ 50 فیصد کرنے کا نوٹفیکیشن جاری کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھی دہلی سے اپنا 50 فیصد عملہ واپس بلا لیا تھا۔

ہائی کمیشنز میں عملے کی تعداد 110 ہوتی ہے لیکن 2019 میں پاکستان بھارت کشیدگی کے وقت ہی ہائی کمشنروں کی اپنے اپنے ملک واپسی ہو گئی تھی جس کے بعد عملہ مقررہ تعداد سے کم ہو کر 80 کے لگ بھگ رہ گیا تھا۔ 

بھارتی صحافی شنکر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ بھارتی وزارت خارجہ نے امارات کے کسی قسم کے کردار کے حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ تعلقات کی بحالی ایک دم نہیں ہو گی بلکہ مرحلہ وار ہو گی۔

اگر سفارتی سطح پر ہائی کمشنروں کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے تو اس کو بریک تھرو سمجھا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئندہ ماہ مزید کچھ مثبت پیش رفت متوقع ہے۔ 

بیک ڈور رابطوں کی کڑیاں 

واضح رہے کہ تعلقات میں نرمی ایک دم سے نہیں ہوئی بلکہ گذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھارتی صحافی کو انٹرویو دے کر انکشاف کیا کہ بھارت بات چیت شروع کرنے کا خواہاں ہے۔ تاہم بعد ازاں بھارتی دفتر خارجہ نے اس بیان کی تردید کر دی۔ 

نومبر 25، 26 کو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے امارات کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس کے چند دنوں بعد ہی دسمبر میں بھارتی آرمی چیف کا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا چھ روزہ دورہ ہوا۔

بھارتی آرمی چیف کی واپسی کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے 17 دسمبر کو امارات کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔ 

سعودی عرب اور یورپی یونین بھی کوشاں

سینیئر سفارتی صحافی شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کنٹرول لائن پر سیز فائر معاہدے کے احترام کا اعادہ اچانک نہیں ہوا بلکہ بیک چینل کی وجہ سی ممکن ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی عرب کے وزیر مملکت عادل الجبیر نے گذشتہ برس مارچ میں خود کہا تھا کہ سعودی عرب بھی پاک بھارت تناؤ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین، امارات والے سب کوئی نہ کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امریکہ کی کوشش ہے کہ سفارتی تعلقات 110 کی مکمل تعداد اور باقاعدہ ہائی کمشنر لیول کے ہوں جبکہ یورپی یونین تجارتی تعلقات کے لیے کوشاں ہے۔ ریل، روڈ، ہوائی راستے کھول کر عوامی روابط کھولنا بھی تجاویز میں شامل ہے۔‘ 

انہوں نے مزید بتایا کہ ’2003 میں سیز فائر کے معاہدے سے تعلقات میں بہتری شروع ہوئی تھی اور 2004 میں سارک سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اب بھی اسی طرح کی پیش رفت ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے جس کی وجہ سے تعطل کا شکار سارک سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں ممکن ہونے کا امکان ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا