سیاست، عدالت، علالت

طبی بنیادوں پر ملنے والی ضمانتیں جیلوں میں ان ہزاروں عام قیدیوں کا منہ چڑاتی ہیں جو نجانے کن کن بیماریوں میں مبتلا اور علاج کے منتظر ہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ۔ اے ایف پی

ایک بار پھرعدالت میں نواز شریف کی علالت پر دلائل اور جوابی دلائل، باہر جانے کی اجازت نہ ملی تو وہی ’ڈیل، نو ڈیل‘ کی بحث شروع۔

پچھلی بار طبی بنیادوں پر ضمانت ملی تو کئی سیانے کہنے لگے ’میں نہ کہتا تھا کہ ڈیل ہوگئی ہے‘۔ نقادوں نے اندازے لگائے کہ دراصل نواز شریف کی صحت کے بارے میں مریم نواز کی تواتر سے ٹوئیٹس پلان کے تحت تھیں، یعنی بیماری کا شور محض ایک ڈرامہ ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی عدالت سے ضمانت ملی تو خفیہ ڈیل کے الزامات میں جان پڑ گئی۔ ن لیگی رہنماؤں کو ان کے وہ ارشادات یاد دلائے گئے جن میں وہ سابق صدر پرویز مشرف کی کمر درد کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔

کہا جاتا تھا کہ مشرف دل یا کمر درد کا مریض نہیں بلکہ ’عدالتی بھگوڑا‘ ہے۔ وہی طبی صورتحال اب نواز شریف کو بھی لاحق ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مشرف سزا یافتہ مجرم نہ تھے جب انہیں طبی بنیادوں پر عدالتی ریلیف ملا جبکہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان ’نواز شریف ایک سزایافتہ مجرم ہیں‘۔

ملکی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کیسے آئینی و قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر جمہوریت کے کس بل نکالے گئے۔

ایسے چیلنجز میں سیاست دانوں نے بھی اپنی راہیں نکالیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کوعدالت میں کیس کا سامنا کرنا پڑا تو اچانک ڈاکٹری کاغذ سامنے آگئے، یہ میڈیکل رپورٹس تھیں جن میں ذہنی و نفسیاتی امراض کے ماہرین نے زرداری کو مختلف نفسیاتی امراض کا شکار قرار دیا۔

 ان رپورٹس میں کہا گیا کہ گیارہ سال سے زائد عرصہ قید میں رہنے کے باعث زرداری کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے، انہیں بھولنے کی بیماری، سنگین نوعیت کا ڈپریشن اور ذہنی ٹراما لاحق ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی رپورٹ سامنے آنے اور مقدمہ ختم ہونے کے محض کچھ ہی عرصے بعد زرداری ذہنی، نفسیاتی و جسمانی طور پر مکمل فٹ ہوگئے اور صدر پاکستان منتخب ہوگئے۔ دورِ صدارت کے دوران دسمبر،2011 میں جب صدر زرداری کو میمو گیٹ سکینڈل سے نمٹنا پڑا تو عین موقع پر وہ دبئی کے ہسپتال میں جا لیٹے، ہاں مگر طویل عرصے قید بھگتنے میں زرداری کو اپنے ہم عصر سیاست دانوں میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔

پرویز مشرف کو اپنے دس سالہ دور آمریت میں کھانسی ہوئی نہ بخار چڑھا، وہ ہوا میں مکے لہرا لہرا کر مخالفین کو کہتے رہے’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘۔ شدید سیاسی مخالفت کے باوجود پرویز مشرف کا دل قوی رہا مگر جیسے ہی سنگین غداری کیس کی سماعتیں شروع ہوئی ان کے دل نے ساتھ دینا چھوڑ دیا وہ لگ بھگ ہر پیشی سے قبل راولپنڈی کے اے ایف آئی سی ہسپتال کے بستر پر دراز ہو جاتے۔

 تاہم ملک سے باہر جانے کا پروانہ ملتے ہی ان کا دل بھلا چنگا ہوگیا وہ بیماری بھول بھال کر ایک محفل میں محو رقص بھی نظر آئے،بس اور کچھ نہیں سنگین غداری کیس جج، وکلا اور میڈیا آج بھی ان کی راہیں تک رہے ہیں۔

نیب کے ملزم شرجیل میمن بھی گرفتاری کے بعد دل کے مریض بن گئے۔ انہیں بھی ہسپتال کے وی آئی پی کمرے میں لیٹ کر قرار ملا۔

 نیب کے ایک اور ملزم ڈاکٹر عاصم بھی بعد از گرفتاری بیمار ہو گئے۔ نیب کے ملزم اس تیزی سے بیمار پڑ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کھوسہ کو بھی کہنا پڑا کہ نیب ریکوری کے پیسوں سے ایک ہسپتال بنالے، نہ کوئی بیمار ہو نہ علاج کے لیے باہر جانا پڑے۔ 

ہمارے حکمرانوں نے جب بھی بیماری کی شکایت کی ان کے سیاسی مخالفین نے اسے ڈرامہ قرار دیا،عوام یقین کریں بھی تو کیسے کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر یہ حکمران طبقہ جب  کسی عدالتی شکنجے میں پھنستا ہے تو مقدمے کے ساتھ ہی نت نئی بیماری گلے پڑ جاتی ہے۔

نجانے یہ سیاستدان علیل ہیں یا ہماری سیاست بیمار پڑ گئی ہے، عوام کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے طاقتوروں کے لیے قانون میں آسانیاں ڈھونڈی جاتی ہیں، بھاری فیس والے وکیل کیس لیتے ہی اپنے تگڑے موکل سے کہتے ہیں کہ دو پیشیوں میں ضمانت تو پکی ہے، آگے بھی دیکھ لیں گے۔

ہاں مگر سرعت سے ملنے والی طبی بنیادوں کی یہ ضمانتی رہائی منہ چڑا رہی ہوتی ہے ان ہزاروں قیدیوں کا جو پاکستان کی جیلوں میں نہ جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا اور علاج کے منتظر ہیں۔

عوام سوچتے تو ہوں گے کہ ہمارے سیاست دانوں کا ہر بار قانون کا سامنا کرتے ہوئے شدید بیمار پڑ جانا محض حسن اتفاق تو نہیں ہو سکتا، ایسے میں اگر کوئی سیاسی رہنما بیچارا واقعی بیمار ہو جائے تو بتائیں یقین نہ کرنے والوں کا کیا قصور!

نیلسن منڈیلا سے موازنہ چاہنے والے ہمارے سیاستدان شاید بھول جاتے ہیں کہ منڈیلا نے27 برس سے زائد عرصہ قید میں گزارا اور صرف پانچ سال برسراقتدار رہے۔ منڈیلا نے کبھی نظام کے آگے گھٹنے ٹیکے نہ ہی کبھی حیلے بہانوں کا سہارا لیا، نہ عوامی قیادت پہ اپنی صحت کو ترجیح دی، ہمیں آج بھی پاکستانی منڈیلا کا انتظار ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ