کوئٹہ کی مشہور چاٹ جس میں سموسہ نہیں ہوتا

قدرت اللہ اپنی مقبول قندھاری چاٹ میں آلو، گندم، چنے اور سلاد کے علاوہ گھر میں بنی آٹے اور امچور کی چٹنی شامل کرتے ہیں۔

بلوچستان میں دہائیوں سے رہنے والے افغان پناہ گزین جہاں اپنے ساتھ ثقافت اور رسم و رواج لائے وہیں انہوں نے پاکستان میں افغانی کھانے بھی متعارف کرائے۔

کبھی ان کھانوں سے ناواقف مقامی لوگ آج ان کے شیدائے ہیں۔ افغانی کھانوں میں کابلی پلاؤ کی طرح قندھاری چاٹ بھی اپنی انفرادیت کی وجہ سے کوئٹہ میں بے حد مشہور ہے۔

اس چاٹ کو بنانے والے کم ہی لوگ ہیں اور یہ مرکزی کوئٹہ شہر کے علاوہ سٹیلائٹ ٹاؤن اور دوسرے کچھ علاقوں میں ملتی ہے۔ اس کے شوقین افراد دور دور سے کھانے آتے ہیں۔

گذشتہ 20 سال سے قندھاری چاٹ بنانے والے قدرت اللہ کو یہ فن ورثے میں ملا۔ پہلے ان کے والد یہ کام کرتے تھے۔  قدرت اللہ نے بڑے ہو کر والد کے اس کام میں ہاتھ بٹانا شروع کیا، جس کی وجہ سے وہ اسے بنانے کے ماہر ہو چکے ہیں۔

وہ کوئٹہ کے معروف علاقے سرکی روڈ پر سڑک کنارے دوپہر کے بعد ریڑھی لگاتے ہیں، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا رش لگ جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عام اور قندھاری چاٹ میں شامل اجزا میں بہت فرق ہے، جو اسے منفرد بناتا ہے۔ ’اکثر چیزیں ہماری اپنی بنائی ہوتی ہیں۔‘

قدرت کے بقول: عام چاٹ میں لوگ سموسہ ڈالتے ہیں لیکن قندھاری چاٹ میں سموسہ نہیں ہوتا۔ ’اس چاٹ میں ہم آلو، گندم، چنے اور سلاد کے علاوہ گھر میں بنائی جانے والی آٹے اور امچور کی چٹنی شامل کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس میں ایک اور اہم چیز قندھاری سرکہ شامل کرنا ہے، جو اسے عام چاٹ سے زیادہ مزیدار بناتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

قدرت اللہ نے بتایا کہ اس چاٹ کی ابتدا غالباً قندھار سے ہوئی اس لیے اس کا نام قندھاری چاٹ پڑا کیوں کہ اس میں شامل تمام اجزا وہی ہیں جو افغانستان کے علاقے قندھار میں بنائی جانے والی چاٹ میں استعمال ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں موجود افغان پناہ گزین اسے اپنے علاقے کی نسبت سے پسند کرتے ہیں لیکن یہ مقامی افراد میں بھی اتنی ہی مقبول ہے۔

دوپہرکے بعد ریڑھی لگانے کا وقت قدرت اللہ کے لیے یوں فائدہ مند ہے کہ لوگ دن بھر کام کاج کرکے تھکنے کے بعد اکثر یہاں آ کر چاٹ کھاتے ہیں اور اپنی تھکن مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔

قدرت اللہ کے مطابق دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکی روڈ ایک مصروف شاہراہ ہے، یہاں سے گزرنے والا ہر شخص ایک بار ریڑھی کو ضرور دیکھتا ہے، جس سے ان کا کام چلتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چاٹ کی قیمت 30، 50 اور 80 روپے ہے۔ کوئٹہ کے بہادر خان بچپن سے اس ریڑھی پر چاٹ کھانے آ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے اس ریڑھی کو قدرت اللہ کے والد چلاتے تھے اور وہ اس وقت سے یہاں آتے ہیں۔

بہادر کے مطابق یہ خاص ایک چاٹ ہے جس میں سرکہ اور دوسری گھر کی بنی چٹنی اور سلاد اس کو مزید منفرد بناتا ہے۔

ان کے بقول عام چاٹ معدے پر بھاری پڑتی ہے لیکن یہ جلد ہضم ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا