پشاور کا مشہور پنیر جس کا کوئی نام نہیں

دنیا بھر میں پنیر اپنے علاقائی ناموں مثلاً چیڈر، گوڈا اور پارمیسن کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تاہم پشاور کا یہ پنیر مقبول تو بہت ہے لیکن اس کا کوئی خاص نام نہیں۔

’چیز‘ جسے اردو میں پنیر کہتے ہیں، زمانہ قدیم سے انسانوں کے استعمال میں رہا ہے لہٰذا وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پہلی مرتبہ کب اور کہاں بنا۔

پنیر پر دنیا میں کئی ریسرچز ہو چکی ہیں، جس میں بعض محققین کا ماننا ہے کہ اس کی ابتدا مشرق وسطیٰ سے ہوئی جب کہ بعض کے مطابق اس کی شروعات شمالی یورپ سے ہوئی۔

دنیا میں پنیر کی ایک ہزار سے زائد اقسام ہیں اور زیادہ تر پنیر کا نام اس علاقے پر رکھا جاتا ہے جہاں وہ بنتا ہے یا پھر کسی دوسری وجہ سے اس کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔

جیسے کہ مشہور ’چیڈر‘ پنیر کا نام انگلینڈ کے ایک گاؤں چیڈر پر رکھا گیا۔ اسی طرح ’گوڈا‘ پنیر نیدر لینڈز کے ایک قصبے گوڈا اور ’پارمیسن‘ پنیر کا تعلق اٹلی کے علاقے پارما سے ہے۔

پنیر کی ایک مشہور قسم کا تعلق پشاور سے ہے جو کہ قدیم وقتوں سے پشتون خواتین گھر میں بناتی آئی ہیں۔ یہ پنیر پشاور کے بعض علاقوں میں ہی ملتا ہے۔ اگرچہ اس کا طریقہ قدرے آسان اور سادہ ہے لیکن اپنے ذائقے کی وجہ سے عوام میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دور دراز کے شہروں سے لوگ بہت شوق سے اسے لے جاتے ہیں۔ پشاور کے اس مشہور پنیر کا کوئی نام نہیں۔ بیچنے والے اس کو اپنی دکان کے نام پر بیچتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خریدار اسے کبھی ایک تو کبھی دوسرے دکاندار کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔

پشاور کے علاقے گل آباد میں واقع پنیر کی ایک فیکٹری کے ملازم ثاقب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی فیکٹری میں روزانہ 40 سے 50 کلو پنیر تیار ہوتا ہے، جس کی شروعات صبح پانچ بجے سے ہوتی ہے۔

انہوں نے پنیر کا طریقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ تازہ، لذیذ اور خوشبو دار پنیر بنانے کا انحصار تازہ دودھ اور پنیر بنانے کی صحیح ترکیب پر ہے۔

’فارم سے آئے تازہ دودھ کو چولہے پر چڑھا کر اس میں مسلسل آدھا گھنٹہ چمچ ہلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک صاف ستھرے برتن پر کاٹن کا کپڑا رکھ کر تمام دودھ چھان لیا جاتا ہے۔

’گرم دودھ کے ایک چوتھائی حصے میں مائع یا دہی ڈال کر دودھ کو پھٹا دیا جاتا ہے۔ پھر ایک دوسرے برتن میں چھلنی رکھ کر اس پر کاٹن کا کپڑا رکھ کر اس میں پھٹا دودھ انڈیلا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد پھٹے دودھ کا پانی نکال کر بچ جانے والے پنیر کو مضبوطی سے باندھ کر اس کو کچھ دیر کے لیے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ اس کا سارا پانی نکل جائے۔ اسی طرح جب تمام پنیر کی پوٹلیاں بن جائیں اور سارا پانی نکل جائے تو بچا کچھا مزید پانی نکالنے کے لیے اس پر ایک بھاری برتن یا کوئی اور سامان ایک گھنٹے کے لیے رکھا جاتا ہے۔

’یہ آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ اس پنیر کو اسی طرح کھا سکتے ہیں یا ساگ، پکوڑوں یا دیگر کھانوں میں بھی ڈال سکتے ہیں۔‘

ثاقب کا کہنا ہے کہ اگر پنیر میں ذرا بھی پانی رہ جائے یا دوران ابال دودھ جل جائے تو پنیرکا ذائقہ صحیح نہیں بنتا۔ علاوہ ازیں یہ جلد خراب ہوجاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی اس کو گھر پر تیار کرنا چاہے تو اس بات کا خیال رکھے کہ جو دودھ خود سے خراب ہو جائے یا پھٹ جائے اس سے پنیر بنانے سے گریز کریں کیونکہ ایسا دودھ مضر صحت ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو