’حکومتی نمائندہ جرگہ سے معاہدہ قبول ہے‘: بنوں میں جاری دھرنا ختم

خیبرپختونخوا حکومت اور مقامی مشران کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر چار نوجوانوں کے قتل پر گذشتہ ایک ہفتے سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ محمود خان مظاہرین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں(کامران بنگش ٹوئٹر)

خیبرپختونخوا حکومت اور مقامی مشران کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر چار نوجوانوں کے قتل پر گذشتہ ایک ہفتے سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

دھرنا منتظمین میں شامل لطیف وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا ہے کہ جو معاہدہ جانی خیل کے مشران نے حکومتی نمائندہ جرگہ سے کیا ہے وہ انہیں قبول ہے۔

اس معاہدے کے بعد وہاں پر جاری دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دھرنا شرکا سے اپنے اپنے علاقوں اور گھروں کو لوٹ جانے کا کہا گیا ہے۔

لطیف وزیر نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی تصویر جس میں وہ ایک دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں کے بارے میں بتایا کہ وہ معاہدہ تاحال ذرائع ابلاغ اور عوام کو نہیں بتایا گیا ہے تاہم جو معاہدہ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر گردش کر رہا ہے وہ ہی صحیح ہے اور اسی پر اتفاق کیا گیا ہے۔

معاہدے میں شامل نکات:

1۔ حکومت جانی خیل کے علاقے میں مکمل امن قائم کرے گی اور مسلح گروپوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ پرامن لوگوں کے گھروں سے قانونی اسلحہ نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ ہی امن کی بحالی کے عمل میں کوئی مکان مسمار کیا جائے گا۔

2۔ جانی خیل کے گرفتار افراد کی جانچ پڑتال کرکے فیصلے پرنظرکا عمل فوری شروع کر کے تین ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ بے گناہ افراد کو ترجیحی بنیادوں پر رہا کیا جائے گا۔

3۔ حکومت بدامنی کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے علاقے جانی خیل کی ترقی کے لیے خصوصی پیکیج دے گی۔

4۔ جانی خیل قوم کے لوگوں اور گرفتار ہونے والے دوسرے افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔

5۔ چار افراد کی ہلاکت کے واقعے کی شفاف تحقیقات کر کے ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔ ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو امدادی پیکیج دیا جائے گا۔

اس سے قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے کامیاب مذاکرات کا اعلان ٹوئٹر پر کیا تھا۔

انہوں نے پیر کی صبح ایک پیغام میں لکھا: ’علی الصبح 4:10 پر  جانی خیل جرگہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہوئے۔ تصفیہ کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بذات خود منظور کرتے ہوئے تمام مطالبات تسلیم کیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دھرنا ختم ہوگیا ہے اور شرکا اور واپس جانے کی ہدایت دی ہیں۔ 

یہ دھرنا 13 سے18 سال کی عمر کے درمیان چار دوستوں کے قتل کے خلاف ہو رہا تھا، جو تقریباً ایک ماہ پہلے شکار پر جانے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔ سات دن پہلے ان کی مسخ شدہ لاشیں ندی کے کنارے ایک گڑھے سے برآمد ہوئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھرنے کے دوران اتوار کو اس وقت اہم موڑ آیا جب مظاہرین نے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تاہم پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔ پولیس نے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔

دھرنا منتظمین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان گذشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد ملاقاتیں ہوئیں لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔

ہفتے کو حکومتی نمائندگی کرتے ہوئے علما کے ایک وفد نے دھرنا منتظمین کے ساتھ ملاقات کی لیکن وہ بھی بے سود ثابت ہوئی۔

اتوار کو ہی وزیر اعلیٰ محمود خان سمیت تین صوبائی وزرا دھرنا منتظمین سے مذاکرات کرنے بنوں پہنچے تھے۔

دھرنا منتظمین کے مطالبات کیا تھے؟

احتجاج کرنے والوں نے تین مطالبات حکومت کے سامنے رکھے تھے جن میں پہلا مطالبہ قتل شدہ نوجوانوں کو شہدا پیکج کا اعلان ہے جس کو حکومت نے تسلیم کر لیا تھا۔ دوسرا مطالبہ علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو یقینی بنایا جائے لیکن اس مطالبے پر حکومت کی طرف سے انہیں شکایت تھی کہ خاطر خواہ جواب نہیں ملا ہے۔

تیسرا مطالبہ سکیورٹی ادارے کے ایک آفسر کے خلاف اس واقعے کا مقدمہ درج کرنا تھا تاہم اس مطالبے میں حکومت کو یہ ایک آپشن یہ بھی دی گئی کہ اگر یہ نہیں ہو سکتا ہے تو ان کے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کر کے ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان