ایک وردی والا بھورا جو صحراؤں میں لڑنے گیا تھا

اگرچہ میں ایک بھورا تھا لیکن میرے پاس نارنجیوں کے ملک میں ساری زندگی رہنے کا اجازت نامہ موجود تھا۔ تو سمجھا جائے کہ میں ایک ایسا بھورا تھا جو مکمل طور پہ نارنجیوں کے ملک کا باسی تھا اور انہی جتنے اختیارات، سہولتیں اور مواقع مجھے موجود تھے۔

(اے ایف پی)

میں ایسے ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا جو دنیا میں رہنے کے لیے مخصوص اصولوں کے ایک سیٹ پہ کاربند رہنا پسند کرتے تھے۔

وہ ان اصولوں کی حفاظت بہت اچھے طریقے سے کرنا جانتے تھے اور انہیں یہ بات معلوم تھی کہ وہ سب چیزیں اپنی اگلی نسل میں کس طرح منتقل کرنی ہیں۔ 

لیکن میرے ماں باپ جہاں نقل مکانی کر کے آئے وہاں یہ اصول نہیں چلتے تھے۔ ان لوگوں کی اپنی زبان، اصول، رنگ، رسمیں اور رواج تھے جو ہم سے بہت مختلف تھے۔ کیوں کہ میرے ماں باپ وطن ترک کر چکے تھے اور وہ کھلے ذہن کے انسان تھے اس لیے انہیں اس جگہ آ کے رہنے میں بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوا۔ وہ اپنے اصولوں پر زندگی گزارتے ہوئے ان لوگوں میں گھل مل گئے۔

 یہ نارنجی رنگ کے لوگ تھے۔ ہمارے لوگ بھورے ہوا کرتے تھے۔

نارنجی لوگ دل کے صاف، دماغ کے بند اور مزاج میں ہم جیسے ہی گرم جوش تھے۔ رنگ اور زندگی گزارنے کے اصولوں کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو میرے ماں باپ کو یہاں اجنبی ہونا محسوس کرواتی۔ سب سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ وہ ہر اس مخلوق کو اپنے ہی جیسا سمجھتے تھے جو دو ہاتھوں سے کھانا کھاتی ہے، جو دو ٹانگوں پہ چلتی ہے، جو دو کانوں سے لفظ پہچانتی ہے، جو دو آنکھوں سے شناخت کرتی ہے اور جو ایک دوسرے کو جانے پہچانے لفظوں کے ذریعے اپنے خیالات پہنچا سکتی ہے۔ مجھے بچپن سے یہی سبق دیا گیا۔

جو واحد چیز مجھے نارنجی لوگوں سے جدا کرتی تھی وہ میری پاک کتاب تھی۔ میں نے اپنی پاک کتاب پڑھی تھی اور خوف کے وقت اپنے آپ کو پاک حفاظت میں سمیٹنے والی ایک دعا مجھے زبانی یاد تھی۔

پڑھائی ختم کرنے کے بعد ہر نارنجی بچے کی طرح، میں، ایک بھورا بچہ کسی اچھی جگہ پہ کام کرنا چاہتا تھا۔ میرے ماں باپ نے وہاں سکونت اسی لیے کی تھی کہ اس علاقے میں کام کرنے کی بہت سہولت تھی۔

پڑھائی کم ہو، زیادہ ہو، بالکل نہ ہو، وہاں انسان کو اتنا کام ضرور مل جاتا تھا کہ وہ اپنے دن اچھے گزار سکے۔ میں وہ سب کچھ پڑھ چکا تھا جو کسی اچھے کام کے لیے ضروری ہو سکتا تھا۔

نارنجی لوگوں کے ملک میں ان دنوں حکمران نئے نئے بدلے تھے۔ باقی سب ملک جو نارنجی نہیں تھے، ان کے متعلق ان لوگوں کی سوچ بدل رہی تھی۔ ان کے خیال میں کوئی بھورا، کوئی پیلا یا کوئی کالا انسان ان کے ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا تھا۔ اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے وہ چاہتے تھے کہ ان سب بھوروں، کالوں اور پیلوں کو ان کے اپنے ملکوں میں مصروف کر دیا جائے۔ انہیں مصروف کرنے اور ان کے خطرے سے بچے رہنے کے لیے نارنجیوں نے ان کے ملکوں میں لڑائی چھیڑ دی تھی۔

نارنجیوں کے اپنے ملک کے علاوہ پوری دنیا میں یہ لڑائی چھڑی ہوئی تھی اور ہر جگہ نارنجی لڑنے والے تھوڑی تھوڑی تعداد میں موجود تھے۔ 

اگرچہ میں ایک بھورا تھا لیکن میرے پاس نارنجیوں کے ملک میں ساری زندگی رہنے کا اجازت نامہ موجود تھا۔ تو سمجھا جائے کہ میں ایک ایسا بھورا تھا جو مکمل طور پہ نارنجیوں کے ملک کا باسی تھا اور انہی جتنے اختیارات، سہولتیں اور مواقع مجھے موجود تھے۔

انہیں صحت کی، پڑھائی کی، سفر کی، خوراک کی، جو بھی سہولتیں میسر تھیں میں ان میں حصہ دار تھا۔ ایک بھورا حصے دار تھا۔ ان دنوں حکمران ایک نئی لڑائی چھیڑنے کے چکروں میں تھے۔ ان کے خیال میں وہ لوگ جو ان سے ہزاروں میل دور ایک صحرا میں رہتے تھے اور جو دنیا کی سب سے پرانی تہذیب ہونے کے دعوے دار تھے اور جو بھورے تھے، ان کا ایک بادشاہ نارنجیوں کے لیے، میرے ملک والوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا۔

جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، میں باوجود رنگ میں ان جیسا نہ ہونے کے، دماغی طور پہ بالکل ان کے جیسا تھا۔ مجھ میں اور کسی بھی نارنجی میں ایک فرق میری پاک کتاب کا تھا، یا اس دعا کا تھا جو بچپن میں اپنی حفاظت کے لیے میری ماں نے سکھائی تھی۔ وہ اس پر یقین رکھتی تھی اور اسی کا دیا ہوا یقین میرے اندر بھی رکھا ہوا تھا۔ تو میرے ملک والے صحراؤں کے بادشاہ سے لڑنے کا ارادہ باندھ چکے تھے۔ 

جب انہوں نے یہ ارادہ باندھا اور اس جیسے دو تین ارادے اور باندھے تو اس دفتر میں نئے لوگ بھرتی کرنا چاہے جس نے صحراؤں میں جا کے لڑنے والوں کو تیار کرنا تھا۔

اشتہار نکلے،  میں اور مجھ جیسے بہت سے لوگ اس دفتر میں بھرتی ہو گئے۔ ہمیں دو تین سال کی سخت تربیت دی۔ ہمارے سینوں پہ ٹھنڈے پانی کا پریشر مارا جاتا، ہمیں میلوں دوڑنے پہ مجبور کیا جاتا، ہمیں دیواریں، درخت، پائپ، عمارتوں اور نہ جانے کن کن چیزوں پہ چھپکلی کی طرح چڑھ جانے کا ماہر بنایا جاتا، ہمیں گرم سرد موسم کے مصنوعی ماحول میں کئی کئی دن رکھا جاتا، آخر کار ہم تیار تھے۔ ایک بھورا آدمی نارنجیوں کی طرف سے لڑنے کے لیے صحرا کے بھورے آدمیوں کا رخ کرنے کے لیے تیار تھا۔ ان لوگوں کی زبان وہ تھی جو میری مقدس کتاب کی زبان تھی لیکن کتاب کے علاوہ میں اس کا ایک بھی لفظ نہیں جانتا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس دن میں صحرا کے ساتھ ملے اس شہر میں پہنچا تھا وہ دن اس شہر کی معلوم تاریخ کا برا ترین دن تھا۔ اس دن نارنجیوں اور مقامی لوگوں کی مدد سے بغاوت وہاں کامیاب ہو چکی تھی اور بادشاہ کا مجسمہ گلے میں رسی ڈال کے کھینچا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ دھماکے ہو رہے تھے۔ اپنے لوگ اپنے ہی لوگوں پہ گولیاں چلا رہے تھے۔ علاقائی لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں۔ طاقت کا مرکز نارنجی تھے لیکن نارنجی خود بوکھلائے ہوئے تھے۔ وہ اس آگ کو اتنا پھیلتا ہوا دیکھ کے پریشان ہو چکے تھے۔ وہ اسے بجھانا نہیں جانتے تھے۔

میں بھی انہی میں سے ایک تھا۔ بادشاہ کا مجسمہ دو ٹکڑوں میں نیچے گر چکا تھا۔ پہلے اس کا سر اور کمر ٹوٹ کے زمین پر آئے تھے۔ پھر اس کے باقی دھڑ کو لوہے کے راڈ اور ہتھوڑے مار مار کے توڑ دیا گیا تھا۔ یہ مقامی بھوروں کا ہی کام تھا۔ اسی وقت مجھ سے دو سو گز دور ایک گاڑی میں دھماکہ ہوا۔

وہ ایک بھورے صحرائی خاندان کی گاڑی تھی۔ گاڑی جو غلطی سے ایک کھلونا بم پہ چڑھ چکی تھی۔ گاڑی چلانے والا مرد کام آ چکا تھا۔ پیچھے بیٹھی بچی کی پیشانی سے خون بہتا تھا اور سامنے بیٹھی بھوری صحرائی عورت خوف زدہ ہو کے مجھے دیکھ رہی تھی۔

میں ہتھیاروں میں جکڑا ہوا تھا۔ نارنجیوں کی وردی میرے جسم پر تھی، ان کی زبان ہی میری واحد زبان تھی، میں بھوروں کی زبان نہیں جانتا تھا۔

وہ عورت مجھ سے بری طرح ڈری ہوئی تھی۔ اس بچی کا خون مسلسل بہہ رہا تھا۔ میں انہیں بچانا چاہتا تھا لیکن وہ گاڑی سے نکلنے اور میرے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے خیال میں وردی والا کوئی بھی آدمی جو نارنجیوں کی طرف سے بھیجا گیا ہو وہ انہیں مارنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک بے قصور عام عورت اور ایک معصوم بچی کی ماں تھی۔ وہ بچی جو تیزی سے موت کے منہ میں جا رہی تھی۔

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں انہیں کیسے سمجھاؤں، کیسے بتاوں کہ میں انہیں ہسپتال لے جانا چاہتا ہوں اور وہ اگر گاڑی سے کچھ دیر نہ نکلے تو گاڑی آگ پکڑ سکتی ہے یا بچی بے ہوشی میں جا کے مر سکتی ہے۔ 

میں اونچی اونچی آواز میں پاک کتاب کی وہ دعا پڑھنا شروع ہو گیا جو اس صحرائی بھوروں کی زبان میں میرا کل علم تھا۔ جو میری ماں نے مجھے سکھایا تھا۔ جیسے ہی میں دعا کے بیچ میں پہنچا وہ عورت اپنی بچی سمیت گاڑی سے باہر آ گئی۔ میری طرف اشارہ کیا، اسی پاک کتاب والی زبان میں سلام کیا، میں سلام کا جواب دینا جانتا تھا، میں نے وہ دیا اور وہ عورت بے بسی یا خوشی کے آنسوؤں سے رونے لگ گئی۔

وہ دعا جو میری ماں نے مجھے میری حفاظت کے لیے سکھائی تھی، پاک کتاب کی وہی دعا آج دو صحرائی انسانوں کے مجھ پہ اعتبار  کرنے کی وجہ بن گئی تھی۔ میں جو کہ ایک نارنجی تھا، میں جو کہ ایک بھورا تھا، میں جو کہ صحرائی لوگوں سے لڑنے آیا تھا، میں جو وردی والا تھا۔ میں جو سب سے پہلے ایک انسان تھا، میں دوسرے انسان کی جان بچانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔

ہسپتال سے نکلتے ہوئے حفاظت کی وہ پاک دعا اور اس معصوم صحرائی بچی کی آنکھیں میرا کل سامان تھیں۔ میرے ماں باپ کے مخصوص اصولوں کا سیٹ میرے اصولوں کے سیٹ سے میچ کر چکا تھا۔  

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ