کوسووو کی ’نڈر‘ صدر فیوزا عثمانی کون ہیں؟

فیوزا عثمانی، عاطفہ یحی آغا کے بعد کوسوو کی دوسری خاتون رہنما ہیں۔

 کوسووو کی نئی  صدر فیوزا عثمانی پارلیمان کے سیشن میں شرکت کے لیے آمد پر (اے ایف پی)

مسلم اکثریتی ملک کوسووو کی پارلیمان نے 38 سالہ کرشماتی رہنما فیوزا عثمانی کو گذشتہ دنوں ملک کا نیا صدر منتخب کر لیا۔

پارلیمانی سپیکر گلاؤک کونجوفکا نے اعلان کیا کہ قانون کی پروفیسر، جو بدعنوانی کے خاتمے کے لیے پرعزم نسل کا حصہ ہیں، کو وہاں موجود 82 اراکین میں سے 71 کے ووٹ ملے اور اس طرح وہ ملک کی نئی صدر منتخب ہو گئیں۔

مس عثمانی نے قانون سازوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کام کریں گی۔ ’میں سب کی صدر رہوں گی۔‘

15 افراد پر مشتمل کابینہ میں چھ خواتین وزرا کے ساتھ ان کی نئی انتظامیہ بھی خواتین کو اقتدار سے طویل عرصے تک دور رکھنے کے خلاف مضبوط پیغام دے رہی ہیں۔

ایک ظاہری طور پر متحرک فیوزا عثمانی نے نوجوان خواتین سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’آج کوسوو نے ایک خاتون صدر منتخب کی ہے۔ لڑکیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں رہیں... آپ کا ہر خواب حقیقت بن سکتا ہے۔‘

سابق صدر ہاشم تھاچی پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ نومبر میں سبکدوش ہو جانے کی وجہ سے صدر کا عہدہ خالی پڑا تھا۔

فیوزا عثمانی کون ہیں؟

عثمانی نے پرسٹینا میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد امریکہ کی یونیورسٹی آف پٹس برگ میں ماسٹرز اور بیچلر کی ڈگریاں مکمل کیں۔ اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز انہوں نے ایک سماجی کارکن کے طور پر کیا تھا اور نوجوانوں خصوصا خواتین میں کافی مقبول ہیں۔

فیوزا عثمانی اگرچہ ڈیموکریٹک لیگ آف کوسووو نامی جماعت کی اعلی عہدیداروں میں سے ایک تھیں لیکن اندرونی انتشار کے بعد انہیں پارٹی سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے فروری کے انتخاب میں ویت ویندوسی پارٹی کے امیدوار کے طورپر تین لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

عثمانی کے ووٹ کوسوو کے سیاسی منظرنامے پر خواتین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بھی عکاسی کرتے ہیں جس پر مردوں کا غلبہ ہے، خصوصا قیادت کے عہدوں پر۔ ایک سو بیس نشستوں پر مشتمل اسمبلی میں ایک تہائی ارکان خواتین ہیں۔

فیوزا عثمانی کو ملک میں خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کورتی کے برخلاف عثمانی کا کہنا ہے کہ سربیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت بحال کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

بلغراد سرکاری طور پر اب بھی کوسووو کو سربیا کا ایک صوبہ سمجھتا ہے اور 2008 میں اس کی طرف سے آزادی کے اعلان کو مسترد  کرتا ہے۔

فیوزا عثمانی، عاطفہ یحی آغا کے بعد کوسوو کی دوسری خاتون رہنما ہیں۔ عاطفہ 2011 سے 2016 کے درمیان کوسووو کی صدر تھیں۔

کئی زبانوں پر عبور رکھنے والی صدر خواتین کے حقوق کے بارے میں عوامی طور پر آواز اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ عثمانی نے حال ہی میں ایک ٹویٹ کہا کہ ’ہمیں اس ذہنیت کا مقابلہ کرنا چاہیے جہاں خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سطح پر سلوک نہیں کیا جاتا اور اس کا آغاز مختلف انداز میں حکومت کرنے سے ہوتا ہے۔‘

بےخوف

مقامی ذرائع ابلاغ نے عثمانی کو ’نڈر‘ قرار دیا ہے کیونکہ وہ حکمران بدعنوان اشرافیہ کے بارے میں جرات مندانہ طور پر بات کرنے والوں میں سے ایک تھیں۔ اس اشرفیہ کے جنگ میں کردار کی وجہ سے حاصل ہونے والے احترام کو دیکھتے ہوئے یہ آسان نہیں تھا۔

انہوں نے حال ہی میں اے ایف پی کو بتایا کہ کوسوو اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک ہم جرائم اور بدعنوانی کی بڑی اور مضبوط دیوار کو نہیں گراتے جو گذشتہ برسوں میں تعمیر کی گئی ہے۔

اس طرح کے بیانات نے بہت سے کوسوو کے لوگوں کو عثمانی کو بہتر تبدیلی کی محرک قوت کے طور پر سمجھنے پر مجبور کیا۔

قانون کے ایک جریدے نے حال ہی میں صدر کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ عثمانی نے کوسوو کے بہت سے شہریوں کے دلوں پر قبضہ کر لیا ہے کیونکہ وہ کرشماتی، پراعتماد اور خواتین کے لیے اکیسویں صدی کی رول ماڈل ہیں۔

ان کے نایاب ناقدین کا مؤقف ہے کہ ان کے پاس تجربے کی کمی ہے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر عثمانی پہلی بار 2011 میں ایل ڈی کے ساتھ پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئی تھیں اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم کے لیے پارٹی کی امیدوار تھی۔

وہ شادی شدہ ہیں اور ان کی جڑواں بیٹیاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فروری میں ہونے والے انتخابات میں کورتی کی ویت ویندوسی پارٹی نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی تاہم پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے صرف دو سیٹوں سے پیچھے رہ گئی تھی۔

فیوزا عثمانی کو وزیر اعظم البن کرتی اور ان کی ویٹیونڈوسے تحریک کی حمایت حاصل تھی جس نے فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔

ان تنائج نے 120 رکنی مقننہ کی تاریخ پلٹ دی جس پر کوسوو لبریشن آرمی (کے ایل اے) کے سابق گوریلا تحریک کا غلبہ تھا جنہوں نے 1998-99 کی تلخ جنگ میں سرب افواج کا مقابلہ کیا تھا۔

اتوار کے روز پارلیمنٹ میں تیسری کوشش کے بعد فتح نے سابق گوریلا اور اقلیتی سربوں سمیت اراکین کی جانب سے ہفتے کے روز ووٹ کے بائیکاٹ کرنے والے تعطل کو حل کر دیا۔

فیوزا عثمانی اور کرتی کو اب ایک کمزور معیشت کو درست کرنا ہوگا جو کوسوو کے لوگوں کو اوسطا صرف 500 یورو (600 ڈالر سے کم) کی ماہانہ تنخواہ حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے اور جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری 50 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

بہت سے نوجوان سوئٹزرلینڈ اور جرمنی نقل مکانی کر چکے ہیں اور کرتی اور فیوزا عثمانی دونوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مزید ’انصاف اور ملازمتوں‘ کا وعدہ کیا تھا۔

دریں اثنا بلغراد کی جانب سے کوسوو کی آزادی کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار سرحدوں پر کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔

یورپی یونین اور امریکہ ممکنہ طور پر نئی حکومت پر سربیا کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے جس کا مقصد علاقائی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔

عثمانی اور کرتی کو کوویڈ-19 ویکسین کی کمی اور صحت کے نظام پر بڑھتے بوجھ کا تیزی سے حل نکالنا ہوگا کیونکہ ملک میں کرونا وائرس وبا سے 1900 افراد کھو چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر