بھارت: قرآن سے 26 آیات ہٹانے کی عرضی مسترد

اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین اور بی جے پی کے حمایتی وسیم رضوی نے گذشتہ ماہ 12 مارچ کو بھارتی سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی، جس میں انہوں نے قرآن میں سے26 آیتیں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

17 مارچ 2021 کی اس تصویر میں احمد آباد میں لوگ وسیم رضوی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کو قرآن میں سے 26 آیات ہٹانے کی عرضی مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار سید وسیم رضوی پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔

وسیم رضوی، جو اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کٹر حمایتی ہیں، نے رواں برس 12 مارچ کو بھارتی سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی یا پی آئی ایل دائر کی تھی، جس میں انہوں نے قرآن میں سے 26 آیتیں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

وسیم رضوی کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ ان 26 آیات میں جہاد کا ذکر ہے، جن سے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے، نیز یہ آیات بھارت کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے خطرہ ہیں۔

پیر کو جسٹس آر ایف ناریمان، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس ایچ رائے پر مشتمل بھارتی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وسیم رضوی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔

بینچ نے عرضی پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک غیر سنجیدہ پی آئی ایل ہے۔‘

جسٹس ناریمان نے وسیم رضوی کے وکیل ایڈوکیٹ آر کے رائے زادا کی سرزنش کرتے ہوئے کہا: ’کیا آپ اس عرضی کو لے کر سنجیدہ ہیں۔‘

وکیل رائے زادہ نے قرآن کی آیات کو ہٹانے کے مطالبے پر دلائل دینے کی بجائے مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو منظم کرنے کی استدعا کی، تاہم بینچ نے ان کی کسی بھی بات کے ساتھ اتفاق نہ کرتے ہوئے عرضی کو یکسر مسترد کر دیا۔

واضح رہے کہ وسیم رضوی کی عرضی پر بھارت اور پاکستان کے مسلمانوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ بھارت اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں مسلمانوں نے وسیم رضوی کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کیا تھا۔

تاہم اب بھارتی مسلمان سپریم کورٹ کے فیصلے کا سوشل میڈیا پر خیر مقدم کر رہے ہیں۔

 وسیم رضوی کون ہیں؟

وسیم رضوی اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ وہ حکمران جماعت بی جے پی اور نریندر مودی کے بڑے مداح ہیں۔

پہلے وہ اتر پردیش کی ایک بڑی سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی کے منظور نظر تھے۔ وہ 1995 سے 2020 تک بھارت کی ریاست اتر پردیش میں شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے، تاہم 2012 میں کرپشن کی وجہ سے انہیں پارٹی نے نکال دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رضوی بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے شدید حامی رہے ہیں۔ 2019 میں انہوں نے ’رام کی جنم بھومی‘ فلم لکھی اور اسے خود پروڈیوس بھی کیا۔

اس کے علاوہ بھی وسیم رضوی میڈیا کی سرخیوں میں آتے رہے ہیں۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیراعظم مودی کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ بھارت سے دینی مدرسوں کو ختم کر دینا چاہیے۔

اسی طرح ایک اور خط میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ بہت ساری ایسی مساجد ہیں جو مندروں کو مسمار کرکے بنائی گئی ہیں لہٰذا مندروں کو اپنی اصل جگہوں پر بحال کیا جائے۔

تاہم قرآن میں تحریف کرنے کے ان کے تازہ مطالبے پر بھارت بھر سے ان کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔ نہ صرف شیعہ کمیونٹی بلکہ خود ان کے خاندان کے لوگوں نے بھی درخواست گزار سے برات کا اعلان کیا ہے۔

ایک ویڈیو پیغام میں رضوی کا کہنا تھا کہ ان سے سب الگ ہو گئے ہیں لیکن وہ یہ کیس جیتیں گے اور اگر جیت نہ سکے تو خودکشی کرلیں گے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) رضوی کے خلاف کرپشن کے کیسوں کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس وقت ان کا سپریم کورٹ میں اس طرح کی عرضی دائر کرنے کا ایک مقصد ان کیسوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہوسکتا ہے۔

چاند مل چوپڑا کیس

آزاد بھارت میں قرآن کو عدالت میں چیلنج کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے 1985 میں چاند مل چوپڑا نامی شخص نے قرآن کو کلکتہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

ان کا موقف تھا کہ 85 آیتیں ایسی ہیں، جو بقول ان کے تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس سے پہلے 1984 میں چکھرابرتی نامی شخص نے مغربی بنگال کے سیکریٹری برائے محکمہ داخلہ کو خط لکھ کر قرآن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ شخص بعد میں چاند مل سے ملا اور کورٹ میں جانے سے پہلے مل نے بھی مذکورہ محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کو خط کے ذریعے اس طرح کا مطالبہ کیا تھا۔

چاند مل کی درخواست سماعت کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ کی جج پدما خستگر نے منظور کرلی تھی۔ اس وقت وہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکومت تھی۔ درخواست کے سماعت کے لیے منظور ہونے پر مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیراعلیٰ جیوتی بسو نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

اس وقت مرکز میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت تھی اور راجیو گاندھی وزیراعظم تھے۔ اس ضمن میں ریاستی (مغربی بنگال) حکومت کو مرکز کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بعد ازاں چیف جسٹس آف کلکتہ ہائی کورٹ نے اس کیس کو جسٹس خستگر کی عدالت سے جسٹس باسکر کو منتقل کیا۔

دونوں حکومتوں نے یہ کیس ہائی کورٹ میں مسلمانوں کی طرف سے لڑا اور بالآخر جسٹس باسکر نے فیصلہ دیا کہ یہ مقدمہ خارج کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اور کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا