بھارت میں اس وقت جہاں ’ہندو ریڈیکل تنظیموں‘ کے اراکین کے ہاتھوں مساجد کی ’بے حرمتی‘ ایک معمول کی بات بن چکی ہے وہیں جنوبی شہر حیدرآباد کے ہندو مصور و خطاط انیل کمار چوہان مساجد کے محرابوں و دیواروں پر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات لکھ کر ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اڑتالیس سالہ انیل کمار چوہان اب تک ایک سو سے زائد مساجد کو بنا کوئی معاوضہ وصول کیے کلمہ طیبہ، قرآنی آیات اور دیگر مذہبی تحریروں و آرٹ ورک سے سجا اور سنوار چکے ہیں۔ وہ مساجد کے باہر یا اندر لگے بورڈ پر عربی اور اردو زبانوں میں احادیث بھی لکھتے ہیں۔
شروع میں جب بعض لوگوں نے انیل کمار کے مساجد میں کلمہ طیبہ و قرآنی آیات لکھنے پر اعتراض کیا تو انہوں نے حیدرآباد کی مشہور اسلامی دانش گاہ جامعہ نظامیہ سے رجوع کیا جہاں سے ان کے حق میں ایک فتویٰ جاری ہوا۔
پرانے شہر حیدرآباد کے حسینی علم علاقے سے تعلق رکھنے والے انیل کمار چوہان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں تو ہندو اور مسلمان میں فرق نہیں کرتا ہوں۔ شروع میں جب میں نے مساجد میں خطاطی کا کام شروع کیا تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ ایک ہندو مسجد میں قرآنی آیات کیسے لکھ سکتا ہے۔‘
’میں نے جامعہ نظامیہ سے رجوع کیا، وہاں سے ایک فتویٰ جاری ہوا کہ میں مساجد میں کام کر سکتا ہوں۔ فتویٰ میں کچھ شرائط رکھی گئیں۔ وہ شرائط یہ ہیں کہ مجھے مساجد میں باطہارت و با وضو کام کرنا ہوگا۔‘
انیل کمار کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ چونکہ آپ مساجد میں کام کرتے ہو اس لیے آپ مسلمان ہو جاؤ۔ میں ان باتوں کا برا نہیں مانتا، میں ہر مذہب کا احترام کرتا ہوں۔ مساجد میں عربی اور اردو لکھنا میرا کام ہے، میرا پیشہ ہے۔‘
’مجھے مساجد، درگاہوں اور مندروں میں کام کرنے سے بڑا سکون ملتا ہے۔ مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں کچھ الگ کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ آپسی بھائی چارے کے لیے کام کریں۔ ہمیں خلوص اور محبت سے رہنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرنا چاہیے۔ ہر مذہب اچھائی کی طرف لے جاتا ہے۔ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔‘
انیل کمار کہتے ہیں کہ عربی اور اردو لکھنے کی وجہ سے انہیں شہرت ملی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں جاننے لگے ہیں۔ وہ ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو بھی اپنے قلم یا برش سے سجاتے اور سنوارتے ہیں۔
’میں سو سے زیادہ مساجد میں ہدیہ یا معاوضہ طلب کیے بغیر کام کر چکا ہوں۔ کچھ سال سے اب ہدیہ لے کر کام کر رہا ہوں۔ مجھے لوگ جس کسی عبادت گاہ میں بھی کام کرنے کے لیے بلاتے ہیں میں جاتا ہوں۔‘
انیل کمار پیشے سے مصور و خطاط اور شوق کے اعتبار سے نعت خواں اور غزل گلوکار ہیں۔ شہر میں منعقد ہونے والی نعت خوانی کی اکثر مجالس میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے۔
’میں غزلیں گاتا ہوں اور نعتیہ کلام بھی پڑھتا ہوں۔ اردو زبان کو سیکھنے سمجھنے کے لیے غزل ایک بہترین ذریعہ ہے۔ نوجوان نسل کو غزلیں سننی چاہئیں اور شاعروں کے کلام کو پڑھنا چاہیے۔‘
مختلف زبانوں میں خطاطی کرنے والے انیل کمار نے دسویں جماعت تک پڑھائی کی ہے نیز حیدرآباد کے شری وینکٹیشور کالج آف فائن آرٹس سے فن مصوری کا کورس کیا ہے۔
’میں اردو اور عربی کے علاوہ ہندی، تلگو اور بنگالی میں بھی لکھتا ہوں۔ اردو کسی سکول یا مدرسہ میں نہیں پڑھی ہے۔ لوگ مجھے تحریر تھما دیتے تھے کہ یہ لکھنا ہے۔ یہ تحریریں پڑھتے پڑھتے میں الفاظ سے واقف ہو گیا اور اردو سیکھ لی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ آج کے اس دور میں کوئی بھی نوجوان خطاطی کے فن کو سیکھنے اور اسے پیشے کے طور پر اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
’میرے خاندان میں بھی اب کسی کو بھی اس کام میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں اور میرا ایک بھائی یہ کام آگے بڑھا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انیل کمار چوہان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں بھی ان کے کام کو پسند کیا جاتا ہے اور اگر انہیں کبھی وہاں مدعو کیا گیا تو وہ ضرور جائیں گے۔
’فیس بک پر میرے پاکستان سے کافی دوست ہیں۔ وہ میرے کام کو پسند کرتے ہیں۔ اگر وہاں سے کوئی مجھے مدعو کرتا ہے تو میں جاؤں گا۔ ایک آرٹسٹ کے لیے سرحدیں معنی نہیں رکھتی ہیں۔‘
انیل کمار چوہان نے حال ہی میں پرانے شہر کے بخشی گنج کمہار واڑی علاقے میں واقع 70 سالہ قدیم ’مسجد حسینی ایک منار‘ کی محراب کو کلمہ طیبہ اور آرٹ ورک سے سجایا ہے۔
اس مسجد کے منتظم محمد ساجد کہتے ہیں کہ ’انیل بھائی نے ہماری کافی مدد کی ہے۔ ہر مسجد میں کام کرتے ہیں۔ مذہب اور ملت دیکھے بغیر کام کرتے ہیں۔ اللہ انہیں کامیابی کی بلند ترین سطح تک لے جائے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے جب انیل کمار چوہان کے حق میں جاری فتوے کے بارے میں جامعہ نظامیہ کے وائس چانسلر مولانا مفتی خلیل احمد سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس وجہ سے ان کے حق میں فتویٰ جاری ہوا کیونکہ ان کا کام اچھا ہے۔ کام اچھا ہو تو اس میں مذہب اور رنگ و نسل کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
’انیل کمار کا کام اچھا ہے، اس میں گنگا جمنی تہذیب بھی ہے اور علم بھی۔ یہ کام مسلمان ہی کرے گا کوئی اور نہیں، یہ دلیل ٹھیک نہیں ہے۔ علم کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں رنگ، نسل، مذہب، زبان اور تہذیب کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔‘
مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ بھارت میں اس وقت جو لوگ مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں وہ اس ملک کی ترقی روکنے کا کام کر رہے ہیں۔
ان کے بقول ’فرقہ وارانہ تفریق کی جو باتیں کی جا رہی ہیں ان سے بھارت کی خدمت نہیں ہوگی۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کر کے بھارت کی ترقی کو روکنے کی کوشش ہے۔