وزارت داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دے دیا

وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق: ’وفاقی حکومت کے پاس یہ تسلیم کرنے کے لیے مناسب مواد موجود ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان دہشت گردی میں ملوث ہے اور انہوں نے ایسی سرگرمیاں انجام دی ہیں جس سے ملک کے امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔‘

(فائل تصویر: اے ایف پی)

وزارت داخلہ نے مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تنظیم پر پابندی لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت کے پاس یہ تسلیم کرنے کے لیے مناسب مواد موجود ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان دہشت گردی میں ملوث ہے اور انہوں نے ایسی سرگرمیاں انجام دی ہیں جس سے ملک کے امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’انہوں (ٹی ایل پی) نے عوام کو اشتعال دلاتے ہوئے ملک میں انتشار کی صورتحال پیدا کی جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے اور کئی کی موت واقع ہو گئی۔‘

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’مشتعل افراد نے بے گناہ عوام کو بھی نقصان پہنچایا۔ وسیع پیمانے پر رکاوٹیں کھڑی کر کے راستے بلاک کیے گئے۔ دھمکی آمیز رویے اور نفرت کو فروغ دیا اور متعدد گاڑیوں سمیت سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔‘

وزارت داخلہ کے مطابق ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں  نے ہسپتالوں کو جان بچانے والی اشیا کی ترسیل بھی روک دی اور عوام اور حکومت کو دھمکیاں دیں، جس سے معاشرے میں خوف و ہراس اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہو گئی۔

اعلامیے کے آخر میں کہا گیا کہ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں حکومت پاکستان اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 11 بی (1) کے تحت تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتی ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگائے جانے کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے تنظیم کی ہر قسم کی کوریج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

ٹی ایل پی سربراہ حافظ سعد رضوی کا ’جیل سے بیان‘

دوسری جانب جیل میں موجود تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ حافظ محمد سعد رضوی کی جانب سے کارکنوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل کی جانب سے ٹوئٹر پر ایک ہاتھ سے لکھی گئی تحریر شیئر کی گئی ہے، جسے انہوں نے سعد رضوی کا تازہ ترین ’بیان‘ قرار دیا ہے۔

مذکورہ تحریر میں سعد رضوی نے ’شوریٰ ممبران سے اپیل‘ کی ہے کہ ’ملکی مفاد اور عوام الناس کی خاطر کوئی غیر قانونی اقدام نہ اٹھائیں، تمام احتجاجی جلسے اور روڈ بلاک فی الفور ختم کیے جائیں اور تمام کارکن پر امن طور پر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کیا جائے۔‘

سعد رضوی کا مزید کہنا تھا کہ ’مرکز و مسجد رحمۃ العالمین کے باہر بھی احتجاج اور دھرنا فی الفور ختم کردیا جائے۔‘

اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کے ساتھ جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری پوری کوشش تھی کہ بات چیت سے معاملات طے ہوں، مسئلے حل ہوسکیں لیکن ان کے ارادے بڑے خوفناک تھے، تین بار وہ پہلے آچکے تھے، اب چوتھی مرتبہ بھی آنے پر بضد تھے، اس لیے ہم نے یہ ساری کوششیں کی ہیں تاکہ ملک میں امن رہے اور ملک میں امن و امان کے لیے ہماری پولیس کے نوجوانوں نے جانیں دی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی کارکنوں کے حالیہ احتجاج کے دوران 580 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 30 گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں۔

وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’سوائے لاہور کے سارے پاکستان کی ٹریفک کھلی ہے، جس کا کریڈٹ پولیس کو جاتا ہے۔‘

 

دوسری جانب پریس کانفرنس کے دوران وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ ’میں مسلسل دو سال تک تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مصروف رہا اور کوشش کرتا رہا کہ ایک مین سٹریم سیاسی جماعت کی حیثیت سے وہ پولیٹیکل سسٹم میں آئیں اور سسٹم بھی ان کو اسی طرح ڈیل کرے، اس حوالے سے گذشتہ چار مہینے میں ہمارے ان کے ساتھ متعدد رابطے بھی ہوئے۔

بقول وزیر مذہبی امور: ’اسمبلی میں قرارداد کے حوالے سے ہم کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے تھے، قرارداد کے متن کے حوالے سے حکومت ایسی تجویز دے رہی تھی جس کے سفارتی اثرات کم سے کم ہوں اور ہم کسی بحران میں نہ پڑ جائیں۔ اس حوالے سے ہم ان سے بات کر رہے تھے اور وہ اپنا متن تجویز کر رہے تھے۔‘

’دوسری جانب ہمارے اور ان کے مذاکرات جاری تھے، لیکن ہمیں مصدقہ ذرائع سے پتہ چلا کہ 20 اپریل کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کی تیاریاں مکمل ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نور الحق قادری کے مطابق: ’ہماری جو آخری ملاقات تھی، اس ملاقات سے پہلے انہوں نے دھرنے کی کال دی اور کہا کہ 20 اپریل کی شام 12 بجے ہم نے مولانا خادم رضوی کی قبر پر جمع ہونا ہے اور پھر وہاں سے فیض آباد کی طرف مارچ کرنا ہے اور وہاں دھرنا دینا ہے۔‘

وزیر مذہبی امور نے کہا: ’اگر مذاکرات نتیجے پر نہیں پہنچے تھے تو انہیں اس کی اخلاقی اجازت نہیں تھی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم نے یہاں تک کہا کہ آپ آجائیں ایک ڈرافٹ آپ کا اور ایک ہمارا ہے، سپیکر ایک پارلیمانی کمیٹی کا اعلان کریں گے، جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہوگی، بے شک آپ ان کے ساتھ بیٹھ جائیں اور معقولیت اور دلیل کے ساتھ متفقہ ڈرافٹ آجائے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن وہ کسی صورت میں پارلیمانی کمیٹی یا ڈرافٹ لانے پر تیار نہیں تھے اور بضد تھے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں، اسی کو مانا جائے اور اسی کو پارلیمنٹ سے منظور کیا جائے۔‘

وزیر مذہبی امور نے مزید کہا: ’ریاستوں کا کام منت سماجت نہیں ہوتا، لیکن بطور سیاسی جماعت اور منتخب حکومت کے، ہم نے بھرپور کوشش کی کہ ان کو مذاکرات اور منت سماجت کے ذریعے سے سمجھایا جاسکے، منایا جاسکے۔‘

ٹی ایل ہی سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘گرفتاری تو بہت سے سیاسی رہنماؤں کی ہوتی ہے لیکن جس طرح ردعمل دیا گیا، وہ دینی اور اخلاقی طور پر درست نہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان