سعد رضوی سمیت تحریک لبیک اراکین پر دہشت گردی، قتل کا مقدمہ

ٹی ایل پی کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کے دوران پولیس اہلکار محمد افضل کی ہلاکت اور متعدد اہلکاروں کو زخمی کرنے پر تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی سمیت ارکان شوریٰ اور کارکنوں کے خلاف زیر دفعہ 302 مع دہشت گردی کی دیگر دفعات مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

(تصویر: تحریک لبیک)

لاہورپولیس نے شاہدرہ میں ٹی ایل پی کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کے دوران پولیس اہلکار محمد افضل کے ہلاک ہونے اور متعدد اہلکاروں کو زخمی کرنے پر تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی سمیت ارکان شوریٰ اور کارکنوں کے خلاف زیر دفعہ 302اوردہشت گردی کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

پاکستان میں مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے پارٹی سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کا دوسرا دن ہے۔

ملک کے بڑے شہروں خاص طور پر پنجاب میں حالات کشیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹی ایل پی کے مبینہ طور پرتین سو سے زائد کارکن پولیس کے لاٹھی چارج جبکہ 40 سے زائدپولیس اہلکار اور شہری مظاہرین کے تشدد سے زخمی ہو چکے ہیں۔ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کے واقعات بھی ہوئے جب کہ مبینہ طور پر ایک پولیس اہلکار اور 12 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔

موٹر وے سمیت بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر داخلی وخارجی راستے مظاہرین نے دھرنا دے کر بند کر رکھے ہیں جس سے شہریوں کو نقل وحرکت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ میں تحریک لبیک کے احتجاج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہے جس کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا۔  ’کسی گروہ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ریاست کو ڈکٹیٹ کر لے گا۔ فیصلے گروہوں پر نہیں چھوڑ سکتے۔‘

ان کے بقول ’آپ صرف بات کر سکتے ہیں، اپنے مطالبات سامنے رکھ سکتے ہیں۔‘ فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کابینہ اجلاس میں لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، جہلم اور بہاولپور میں رینجرز تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔‘

دوسری جانب وزارت داخلہ نے سکیورٹی اداروں کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے شاہراہیں کھلوانے کی ہدایت دے دی ہے۔ جب کہ ٹی ایل پی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب سعد رضوی کی رہائی نہیں بلکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت تحریری معاہدے کے مطابق 20 اپریل کی بجائے ابھی فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت نے پہلے ناممکن مطالبہ مان کر تحریری معاہدہ کر کے غلطی کی اب معاملہ ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال خطرناک ہو گا۔

ڈیڈ لائن سے پہلے ٹی ایل پی سڑکوں پر کیوں؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان کی آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ محمد حسن بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت نے ہم سے تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق ہم نے یقین کرتے ہوئے دھرنا ختم کر دیا تھا۔

تحریری معاہدے میں وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ فرانس کے صدر کی جانب سے توہین مذہب کے متنازع بیان پر ان کے سفیر کو 20 اپریل تک پاکستان سے نکالا جائے گا۔ اور اس سے پہلے ٹی ایل پی کے کسی بھی کارکن یا رہنما کو گرفتار نہیں کیا جائے گا جو گرفتار ہیں انہیں رہا کر دیا جائے گا لیکن اس کے لیے اسمبلی سے اس معاملہ کو پاس کرانے کی مہلت لی گئی تھی۔

حسن بٹ نے کہا کہ ہم نے اتنے ماہ تک کوئی احتجاج کیا بیان بھی نہیں دیا اور حکومت کی یقین دہانی پر خاموشی اختیار کر لی۔ جب ہمارے مطالبے کی پروا نہ کی گئی تو ہم نے 20 اپریل کو دوبارہ احتجاج کا اعلان کیا تاکہ حکومت اپنا وعدہ پورا کرے اور امن وامان برقرار رہے۔

ان کے مطابق ’حکومت نے 12اپریل بروز پیر جنازہ پڑھا کر واپس آتے ہوئے سربراہ ٹی ایل پی حافظ سعد حسین رضوی کو ہی گرفتارکر لیا اور اب تک نامعلوم مقام پر رکھا ہوا ہے۔ اس صورت حال میں ہمارے پاس سوائے سڑکوں پر نکلنے کے کوئی راستہ نہیں بچا۔‘

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے طاقت کے استعمال کا فیصلہ افسوس ناک ہے اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔

حسن بٹ نے کہا کہ اب ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر سعد رضوی کو رہا کیا جائے اور فرانسیسی سفیر کو نکالا جائے ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔ ان کے مطابق اب تک ٹی ایل پی کے 12 سے زائد کارکن ملک بھر میں پولیس تشدد سے ہلاک جبکہ تین سو سے زائد زخمی ہو گئے اور تین ہزار کے قریب گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

ٹی ایل پی سے معاہدے کے مطابق حکومت مطالبات تسلیم کر سکتی ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ حکومت فرانس کے سفیر کو اس معاملہ پر کسی بھی صورت ملک سے نہیں نکال سکتی کیونکہ یہ عالمی سطح پر ناقابل قبول عمل ہو گا اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا یہ ناممکن تھا تو پہلے حکومت نے دھرنا ختم کرانے کے لیے تحریری معاہدہ کیوں کیا کہ وہ 20اپریل تک سفیر کو اسمبلی سے معاملہ پاس کر کے نکال دیں گے۔ جب کہ اس وقت بھی حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ ایسا ممکن نہیں انہیں بٹھا کر سمجھاتے اور کوئی اور راستہ نکالتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب معاہدہ ہو چکا ہے تو اس سے انحراف ممکن نہیں رہا۔ ابھی تک حکومت مناسب حکمت عملی اختیار نہیں کر رہی طاقت کا استعمال انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ ناموس رسالت کا معاملہ ایسا ہے کہ ٹی ایل پی الیکشن چاہے نہ جیت سکے مگر کراچی سے خیبر تک انتشار ضرور پھیلا سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ مظاہرین سے مذاکرات کرے اور ان کی قیادت کو اس بات پر قائل کرے کہ ان کا مطالبہ تسلیم کرنا ممکن نہیں کوئی اور راستہ نکالا جائے گا۔ فرانس کے صدر کے متنازع بیان پر اگرچہ حکومت نے اسلامو فوبیا سے متعلق بہتر موقف اپنایا تھا لیکن اس معاملہ پر اندرونی حالات قابو نہیں کیے جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر فورسز بھی مذہبی جذبات کے پیش نظر کارروائی سے انکار کر سکتی ہیں تو سوچیں اس وقت کیا نتائج ہوں گے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ مختلف علما کے ذریعے ٹی ایل پی قیادت کو مذاکرات پر رضامند کرے اور تھوڑی محنت سے اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرے طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

حکومتی اقدامات

وفاقی حکومت نے تحریک لبیک کے احتجاج کے حوالے سے شرپسند عناصر اور نقص امن میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا۔

وزارت داخلہ میں تحریک لبیک کے ملک گیر احتجاج کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا جس میں وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور قانون نافذ کرنےوالوں اداروں کے حکام نے شرکت کی۔ آئی جی پنجاب بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے اور امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔

حکومت نے فیصلہ کیا کہ امن وامان کی صورت حال کسی صورت خراب نہیں ہونے دی جائے گی ، قانون ہاتھ میں لینےوالوں اور شر پسندوں کےخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزارت داخلہ نے اسلام آباد کے حساس علاقوں میں انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ترامڑی، فیض آباد، ٹی چوک روات، ایکسپریس وے، اٹھال چوک بارہ کہو میں انٹرنیٹ سروس 24 گھنٹوں کے لیے معطل رہے گی۔

دوسری جانب لاہور میں بھی صوبائی سب کیبنٹ کمیٹی برائے داخلہ کا وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں اہم اجلاس ہوا جس میں لاہور کے 16 اہم مقامات پر پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز بھی تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حالات زیادہ خراب ہونے پر پاک فوج کی خدمات لی جا سکتی ہیں، راستے کھلوائے جائیں گے، بہت برداشت کرلیا اب راستے بند نہیں ہونے دیں گے۔

ترجمان لاہور پولیس کے مطابق شہر مظاہرین کے دھرنوں کے باعث 16 مقام سے بند ہے جب کہ مختلف مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 40 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان