’ہم تھک چکے ہیں‘: کویت میں خاتون کے اغوا اور قتل پر احتجاج

رواں ہفتے مبینہ ہراسانی کا سامنا کرنے والی ایک 32 سالہ خاتون کے اغوا اور قتل کے بعد کویت میں خواتین نے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔

کویت میں ایک خاتون کے اغوا اور قتل کے بعد ایک مظاہرے میں خواتین نے مردوں کے تشدد سے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کویت شہر میں جمعرات کو ہونے والا احتجاج 32 سالہ فرح حمزہ اکبر کے قتل کے بعد غم اور غصے کا مظاہرہ تھا۔ 

کویت کی وزارت داخلہ اور متاثرہ خاتون کے اہل خانہ کے مطابق فرح حمزہ اکبر کو منگل کو ان کی گاڑی سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد اغوا کرنے والے نے انہیں چاقو مار کے ایک ہسپتال کے باہر چھوڑ دیا تھا۔ 

اہل خانہ کے مطابق وہ حکام کو اس حوالے سے پہلے ہی شکایت کر چکے تھے کہ فرح کو ایک شخص سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

اس واقعے کے بعد خلیجی ریاست میں خواتین کے ساتھ معاشرے اور قانون کی جانب سے کیے جانے والے سلوک پر ایک بار پھر تنقید کی جا رہی ہے۔   

کویت شہر احتجاجی ریلی میں سحر بن علی کا کہنا تھا: ’ایک خاتون کو رمضان میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ حکومت خواتین کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتی؟ ہمارے اور اس ریاست کے درمیان ایک آئین موجود ہے جو برابری کا وعدہ کرتا ہے۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم یہاں خواتین کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ مزید کوئی بھی نشانہ بنے۔ اس ملک کی ہر عورت قتل تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار بن سکتی ہے۔ ہم کسی بھی نئے جرم سے متعلق سننا نہیں چاہتے۔ ہم اب تھک چکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احتجاج میں شامل خاتون آمنہ الکندری نے اے ایف پی بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ احتجاج فرح اور ان تمام خواتین کے لیے ہے جنہیں رشتہ داروں یا انجان افراد نے قتل کر دیا۔ آج ہم نے فرح کو کھو دیا۔ مگر اگلا نشانہ کون ہو گا؟ کیا میں شکار بنوں گی یا آپ یا پھر آپ کا کوئی قریبی ساتھی؟‘

قتل کا یہ واقعہ کویت میں آن لائن شروع کی جانے والی اس مہم کے دو ماہ بعد ہوا ہے جس میں خواتین کو تشدد اور ہراسانی سے تحفظ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس مہم کو کویت کی می ٹو تحریک بھی کہا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی روتھنا بیگم کا کہنا تھا:’کویت میں خواتین شکایت کرتی ہیں کہ پولیس ان کی شکایت کو سنجیدگی سے نہیں لیتی جس کی وجہ سے تشدد رپورٹ کرنے کے بعد ان کے لیے خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔‘

فرح پر حملے والے دن کویت کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک شخص کو ایک خاتون کو اغوا کرنے کے بعد فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

وزارت کے مطابق گرفتار کیے جانے والے شخص نے متاثرہ خاتون کو سینے میں چاقو مار کے ہلاک کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ 

فرح کے اہل خانہ کے وکیل محسن القطان نے کہا: ’قتل کے روز ایک مشتبہ شخص نے فرح کا پیچھا کیا۔ جب وہ اپنے گھر سے نکل رہی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی اور بھانجی بھی تھیں۔ حملہ آور نے اپنی گاڑی ان کی گاڑی سے ٹکرائی اور انہیں اغوا کر کے لے گیا۔‘

وکیل کے مطابق فرح کے اہل خانہ اس سے قبل بھی حملہ آور کے خلاف شکایت درج کروا چکے تھے۔ 

انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر تشدد اور ہراسانی کے بارے میں روایتی طور پر بات نہیں کی جاتی۔ 

کویت میں پینل کوڈ کی کچھ شقوں کو بدلنے کی مہم کئی سال سے چلائی جا رہی ہے جن کے تحت بدکاری میں ملوث خواتین کو قتل کرنے والے مردوں کی سزا میں کمی کی اجازت دی گئی ہے۔

تقریباً 150 افراد کے احتجاج میں شریک ام محمد کا کہنا تھا: ’میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی۔ میں اپنی بیٹی کے گھر سے باہر نکلنے پر پریشان ہو جاتی ہوں اور ڈرتی ہوں کہ اسے ہراساں کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔‘

گذشتہ سال ستمبر متعارف کروائے جانے والے قوانین میں گھریلو تشدد کے خلاف کسی حد تک تحفظ فراہم کیا گیا ہے لیکن اسی مہینے ایک حاملہ کویتی خاتون کو شادی کے تنازعے پر ان کے بھائی نے گولی مار کے قتل کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین