32 ارب ڈالرز کا قرضہ اور حالات کا مارا ریحان

ریحان نے اخبار میں پڑھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جولائی 2018 سے مارچ 2021 تک تقریباً 32 ارب ڈالرز سے زائد بیرونی قرض لے چکی ہے جو ن لیگ کے پانچ سال میں لیے گئے قرضوں کا 78 فیصد ہے۔

ایک شخص لاہور میں منی چینجر کی دکان کے آگے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

ریحان کے گھر کی قیمت 60 لاکھ روپے ہے۔ اگر موٹرسائیکل، بیوی کا زیور اور گھر میں رکھا ہوا سامان بھی شامل کریں تو کل جائیداد کی مالیت 70 لاکھ روپے بنتی ہے۔

وہ 25 ہزار روپے ماہانہ کی ملازمت کرتا ہے لیکن گھر کا ماہانہ خرچ 75 ہزار روپے ہے۔ بدترین ملکی معاشی حالات اور ذاتی  شاہ خرچیوں کی بدولت 50 ہزار روپے ماہانہ قرض مانگ کر گزارا کرتا ہے۔

اس کے دوست اور رشتے دار امیر ہیں اس لیے قرض مل بھی جاتا ہے۔ اس وقت تک واجب الادا قرض 65 لاکھ روپے بن چکا ہے، یعنی کہ اگر وہ اپنی مکمل جائیداد فروخت کر دے تو صرف دس لاکھ روپے بچیں گے اور باقی سب ختم ہو جائے گا۔

رشتے داروں نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ کچھ تو اس کے گھر کا سامان بیچ کر قرض وصولی کی دھمکی دے چکے ہیں۔

آج ریحان جب اپنا احتساب کرتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کی اپروچ غلط تھی۔ اگر آمدن 25 ہزار تھی تو خرچ 20 ہزار روپے رکھنا چاہیے تھا یا آمدن کے ذرائع بڑھانے چاہیے تھے۔

ابھی وہ اسی فکر میں مبتلا تھا کہ اس نے خبر پڑھی کہ ملک پاکستان کے قرضوں کی شرح جی ڈی پی کا 87.2 فیصد ہو چکی ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ کے ایف آر ڈی ایکٹ 2005 کے مطابق یہ شرح 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ شرح 50 فیصد سے بھی کم ہونی چاہیے۔ لیکن آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالرز قرض کی بحالی کے بعد ورلڈ بینک سے 1.3 ارب ڈالرز اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے 30 کروڑ ڈالرز مزید قرض لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈھائی ارب ڈالرز کے یورو بانڈز بھی جاری کیے گئے ہیں۔

ریحان کی حیرانی اس وقت زیادہ بڑھی جب اس نے پڑھا کہ  یہ ٹرانزیکشنز 25 مارچ 2021 سے 25 اپریل 2021 کے درمیان، یعنی صرف ایک ماہ میں ہوئی ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ حکومت پاکستان نے مزید قرض کیوں لیے ہیں، یہ کہاں خرچ ہوں گے اور انھیں ادا کرنے کےلیے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟

مزید تحقیق سے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یا تو حکومت نے عوام کو بتانا ضروری نہیں سمجھا اور یا وہ خود بھی نہیں جانتی کہ انھیں واپس کس طرح کرنا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ اس کی اور پاکستان کی کہانی ایک جیسی ہے۔ دونوں نے قرض تو لے لیے لیکن یہ نہیں جانتے کہ واپس کیسے کرنے ہیں۔

اسے معلوم ہوا کہ ان قرضوں کے حصول کے بعد حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالرز مزید قرض مانگ لیا ہے۔ وزرات خزانہ کے مطابق حکومت پاکستان جون 2021 تک بجٹ سپورٹ کی مد میں تین قرضے حاصل کرنا چاہتی ہے۔

آر آئی ایس ای2،  ایچ آئی ایف ٹی 2،  اور پی اے سی ای پروگراموں کے تحت کل ڈیڑھ ارب ڈالرز قرض کی درخواست ہے۔ ہر ایک پروگرام سے 50 کروڑ ڈالرز قرض وصول ہو گا۔ وزارت خزانہ کے مطابق یہ مالی سال 2021 کے27 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضہ جات کا حصہ ہے۔

پہلے ورلڈ بینک نے انکار کیا کہ آپ کا عوامی قرض خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا، آمدن کے نئے ذرائع پیدا نہیں ہو رہے، پرانے قرض ادا کرنے کے لیے نئے قرض لیے جا رہے ہیں، اگر آپ کو قرض دیں گے تو اسے واپس کس طرح کیا جائے گا؟

اس پر حکومت پاکستان نے یقین دلایا ہے کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے قرض کی ادائیگی کریں گے۔ جس پر ورلڈ بینک نے جون 2021 میں ایک روپیہ 39 پیسے اور جولائی 2021 میں دو روپے 21 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کے لیے پابند کیا ہے۔

وزیر خزانہ نے ورلڈ بینک کی مینیجنگ ڈائریکٹر آپریشن  سے ورچیول میٹنگ کر کے جون 2021 تک کا وقت مانگا ہے جسے مسترد کر دیا گیا ہے۔

ورلڈ بینک نے 10 مئی 2021 تک تحریری طور پر شرائط کی رضامندی سے متعلق آگاہ کرنے کا پابند کیا ہے تا کہ جون 2021 کو ورلڈبینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ہونے والے اجلاس میں اس ایشو کو رکھا جا سکے۔ یعنی آنے والے دنوں میں عوام پر ایک اور بجلی بم گرایا جائے گا۔

حکومت پہلے ہی مختلف سرکاری اثاثے گروی رکھوا کر قرض لے چکی ہے۔ اب شاید عوام کو گروی رکھوانے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ تقریباً 36 فیصد تک بجلی مہنگی کرنے کے معاہدے دستخط کیے جا چکے ہیں۔

اسے نے پڑھا کہ تحریک انصاف کی حکومت جولائی 2018 سے مارچ 2021 تک تقریباً 32 ارب ڈالرز سے زائد بیرونی قرض لے چکی ہے۔ ن لیگ کے پانچ سالہ دور حکومت میں لیے گئے قرضوں کا 78 فیصد تحریک انصاف کی حکومت صرف پونے تین سالوں میں لے چکی ہے۔

جس سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ شرح نمو کم ہو رہی ہے۔

حیرت میں اضافہ اس وقت زیادہ ہوا جب اس نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز کی رپورٹ پڑھی۔ آئی پی آر نے پاکستان کے پچھلے 20 سالوں میں لیے گئے قرضوں پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ مالی سال 2021 چونکہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اس لیے یہ رپورٹ مالی سال 2020 تک ہے۔

اپڈیٹ اور حقیقی اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے لیے مارچ 2021 تک کے قرضوں کو اگر شامل کریں تو تحریک انصاف نے 32.9 ارب ڈالرز قرض لیا ہے۔ جس کا 76 فیصد یا 25 ارب ڈالرز بیلنس آف پیمنٹ پر صرف کیا گیا ہے۔ ن لیگ نے 24 ارب ڈالزر قرض واپس کیا۔

جولائی 2020 سے مارچ 2021 تک صرف نو ماہ میں 10 ارب ڈالرز قرض لیا گیا۔ ن لیگ نے پانچ سالوں میں 42.4 ارب ڈالرز قرض لیا جس کا 64 فیصد یا 27 ارب ڈالرز بیلنس آف پیمنٹ کے لیے لیا گیا۔ ریحان کو علم ہوا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے لیا گیا قرض معیشیت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وہ 75 ہزار کے خرچ پورے کرنے کے لیے 50 ہزار روپے قرض لیتا رہا، جس نے اسے دیوالیہ کر دیا۔ جو قرض معاشی ترقی کے لیے حاصل کیے جائیں ان سے آمدن کی توقع رہتی ہے اور ممکن ہے کہ اسی آمدن سے قرض کی ادائیگی بھی ہو سکے۔

لیکن بیلنس آف پیمنٹ کے لیے لیا گیا قرض عوام کے کندھوں پر بوجھ ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ سرکار اس سے جان چھڑانے کی بجائے اضافہ کرنے کی طرف گامزن ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے زور دیا ہے کہ اگر قرض مل رہا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر صورت میں اسے لے لیا جائے۔ یہ کامیابی نہیں بلکہ ناکام حکومت کی علامت ہے۔

پاکستانی سرکار یہ جواز پیش کرتی ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک قرض لیتے ہیں، حتیٰ کہ امریکہ کی معیشیت قرضوں کے سہارے چل رہی ہے۔ اگر پاکستان نے قرض لے لیے تو کون سی بڑی بات ہے؟

یہ دلیل انتہائی کمزور ہے۔ پاکستانی اور امریکی معیشت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کے قرض معیشیت کو چلانے کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پراجیکٹس لگائے جاتے ہیں۔ ان سے آمدن حاصل ہوتی ہے اور چند سالوں میں پراجیکٹس قرض کی پوری رقم ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں تو ڈویلمپنٹ کے نام پر لیے گئے قرض بھی ذاتی شاہ خرچیوں میں صرف ہو جاتے ہیں۔

حال ہی میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے حاصل کیے گئے قرض میں افسران کا فوکس ادویات خریدنے کی بجائے گاڑیاں، لیپ ٹاپ، خریدنے اور من پسند لوگوں کو بھرتی کرنے پر رہا۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔

ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات کا مارا ہوا ریحان اس نتیجے پر پہنچا کہ ناکام انسانوں اور ناکام ملکوں کی پالیسیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ کامیابی کا فارمولا سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ جو عمل کرے گا وہ ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا اور جو دوسروں کی بھیک اور قرض پر انحصار کرے گا اس کا حال پاکستان جیسا ہو جائے گا۔

اس نے آج سے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم کرنے اور آمدن کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اور قرض نہیں مانگے گا۔ ابتدا میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو گا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ اگر حکومت پاکستان بھی آج فیصلہ کر لے کہ وہ مزید قرض نہیں لے گی، اخراجات کم کرے گی، برآمدات میں صحیح معنوں میں اضافہ کرے گی اور آمدن کے نئے اچھوتے آئیڈیاز پر کام کرے گی تو پاکستان کا بھی ہر آنے والا دن گزرے دن سے بہتر ضرور ہو جائے گا۔

وقت زیادہ لگ سکتا ہے لیکن یہ تسلی رہے گی کہ سرکار صحیح راستے پر ہے۔

اگر حکومت نے قرض پر معیشت چلانے کی پالیسی تبدیل نہ کی تو آنے والے دنوں میں ملک کے اثاثے بیچ کر ہی گزارا ہو سکے گا۔ جو یقیناً بدترین صورت حال ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت