سیالکوٹ: سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار کیا ہے؟

ویڈیو وائرل ہوتے ہی فردوس عاشق اعوان کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ بعض سمجھتے ہیں کہ مشیر اطلاعات نے درست کیا ہے اور کوئی بھی سرکاری ملازم اگر ایمان داری سے اپنا کام نہیں کر رہا ہے تو ان کا احتساب ہونا چاہیے۔

(سکرین گریب)

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں صوبہ پنجاب کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ سونیا صدف کو بھرے بازار میں ڈانٹ رہی ہیں اور ان کو کہتی ہیں کہ وہ حکومت کی طرف سے رمضان بازار میں اشیا خوردونوش کے معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

ویڈیو میں فردوس عاشق اعوان ان کو مزید بتا رہی ہیں کہ آپ اس کام کی اہل ہی نہیں ہیں لیکن پتہ نہیں کس نے آپ کو اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیا ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے ایسا سیالکوٹ کے ایک رمضان سہولت بازار کے دورے کے موقع پر کیا جہاں ان کے مطابق فروخت کی جانے والی سبزیاں اور پھل معیاری نہیں تھیں۔ ان سبزیوں اور پھلوں کی حالت دیکھ کر فردوش عاشق اعوان برہم ہوگئی تھیں۔

ویڈیو وائرل ہوتے ہی فردوس عاشق اعوان کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ بعض سمجھتے ہیں کہ مشیر اطلاعات نے درست کیا ہے اور کوئی بھی سرکاری ملازم اگر ایمان داری سے اپنا کام نہیں کر رہا ہے تو ان کا احتساب ہونا چاہیے۔

میاں عمر نامی صارف نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کی صلاحیت پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے تاہم فردوس عاشق اعوان کی جانب سے عوامی مقام پر اس طرح کا رویہ اپنانا قابل افسوس ہے۔

پاکستان مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز شریف نے ٹوئٹر پر اپنی بیان میں فردوس عاشق اعوان کی رویے کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سول سرونٹس اور بیوروکریٹس پڑھ لکھ کر، محنت کر کے مقابلے کے امتحان پاس کر کے اس مقام تک پہنچتے ہیں، الیکٹ ہو کر نہیں آتے۔

مریم نواز نے لکھا کہ ’وزیر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو افسران کی تذلیل کا لائسنس مل گیا ہے۔ یہ رعونت قابل قبول نہیں۔ سونیا صدف سے معافی مانگیں۔’

دوسری جانب فردوس عاشق اعوان کی حمایت میں #آفسر_شاہی_عوام_کو_جوابدہ ٹرینڈ بھی ٹویٹر پر چل رہا ہے۔ ٹوئٹر پر وقاص اختر نامی صارف نے لکھا ہے کہ اگر وزیر اعظم عوام کو جوابدہ ہے تو کوئی بھی افیسر عوام کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

سمن نامی صارف نے فردوس عاشق اعوان کو شاباش دیتے ہوئے لکھا کہ زیادہ تر اسسٹنٹ کمشنرز مراعات کا لطف اٹھا رہے ہیں لیکن وہ بازاروں میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

سیالکوٹ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پنجاب کے چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انتظامی افسر یا ملازم کے ساتھ غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔

جواد رفیق نے کہا ہے کہ ’پنجاب بھر میں سخت گرمی میں انتظامی افسران عوام کی سہولت کے لیے فیلڈ میں موجود ہیں اور کسی کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ ان افسران کی تذلیل کرے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے سرکاری افسران کے کام کرنے کے حوالے سے قوانین کا جائزہ لیا ہے تاکہ اس بات کو پرکھ سکیں کہ مشیر اطلاعات نے جو اقدام اٹھایا ہے وہ ریاستی قوانین کے مطابق ہے یا نہیں۔

پاکستان میں تمام سرکاری ملازمین کے لیے ‘ایفیشینسی اینڈ ڈسپلن رولز’ موجود ہیں جو تمام سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں اور یہ قوانین تمام صوبوں میں نافذ العمل ہے۔

اس قانون کے تحت ان ملازمین کے خلاف کارروائی ہوتی ہیں جب متعلقہ محکمے کو لگے کہ کسی ملازم کی کار کردگی ٹھیک نہیں ہے یا اس صورت میں بھی لاگو ہوتا ہے جب ملازم کرپشن، غیر اخلاقی کام یا دیگر کسی بھی غیر قانونی کام میں ملوث پایا جائے۔

اس قانون کے تحت ان ملازمین کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہیں جب وہ دفتر سے سات دنوں سے بغیر اطلاع کے غیر حاضر پائے جائیں۔

 

سرکاری ملازم کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار کیا ہے؟

ایفیشینسی اینڈ ڈسپلن رولز میں کسی بھی ملازم کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا باقاعدہ طریقہ کار دیا گیا ہے۔ کارروائی شروع کرنے کا حق قانون کے مطابق اس محکمے کو دیا گیا جنہوں نے ملازم کو بھرتی کیا ہے جبکہ وزیر اعلی یا وزیر اعظم کے پاس بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری کا حکم دیں۔

انکوائری شروع کرنے کے بعد پہلا کام قانون کے مطابق متعلقہ ملازم کو شوکاز نوٹس جاری کرنا ہوتا ہے۔ اس قانون کے شق نمبر7 میں لکھا گیا ہے کہ متعلقہ محکمہ ملازم کو شوکاز نوٹس جاری کریں اور ملازم سات دنوں کے اندر اس شوکاز نوٹس کا جواب دیں گے جس میں وہ اس بات کا جواب دیں گے کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

تاہم قانون کے مطابق اگر ملازم کسی کرپشن میں ملوث ہے یا انہوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس سے ملکی سالمیت یا سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہوا ہوں اور متعلقہ محکمے کے پاس واضح ثبوت بھی موجود ہوں، تو متعلقہ ملازم کو شوکاز نوٹس جاری کر کے وضاحت کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔

انکوائری شروع ہوتے ہی اس قانون کے شق نمبر 5 کے مطابق متعلقہ ملازم کو تین ماہ کے لیے معطل کیا جائے گا اور انکوائری کو تین مہینوں میں مکمل کر کے ملازم کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا۔

تاہم قانون کے مطابق اگر متعلقہ محکمہ چاہے تو معطلی کا دورانیہ مزید تین ماہ تک بڑھا سکتا ہے۔ جس ملازم کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا، اس کے کیس کو دیکھنے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بنائی جائے گی جس کا سربراہ متعلقہ ملازم سے رینک میں سینیئر ہوگا۔

قانون کے مطابق انکوائری کمیٹی متعلقہ ملازم کو ذاتی طور پر سننے کا موقع دے گی۔ انکوائری کمیٹی تین ماہ کے اندر اگر کیس کا فیصلہ سنانے میں ناکام ہوتی ہے، تو ملازم کو یہ حق حاصل ہے کہ ایپلیٹ اتھارٹی کو درخواست دے کر کمیٹی سے فیصلہ جلدی سنانے کی درخواست کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانون کے مطابق انکوائری کمیٹی کی طرف سے متعلقہ ملازم کے خلاف چارج شیٹ ملازم کو دی جائے گی اور محکمے کے دیگر ملازمین کے بیانات بھی بطور گواہ متعلقہ ملازم کے سامنے ریکارڈ کیے جائیں گے۔

کرپشن میں ملوث ملازم کے خلاف کارروائی

انکوائری کمیٹی بننے کے بعد اگر متعلقہ ملازم کے خلاف کرپشن یا پلی بارگین کے الزامات ثابت ہو جاتے ہیں، تو ان کو اپنے عہدے سے برخاست کیا جائے گا تاہم ایسے کیسز میں برخاست کا حق عدالت کو حاصل ہوگا۔

اگر کسی ملازم کے خلاف بغیر نوٹس کے غیر حاضری پر انکوائری کا حکم دیا جاتا ہے، تو انکوائری کمیٹی سب سے پہلے متعلقہ ملازم کے مستقل پتہ پر نوٹس جاری کرے گا اور ان کو بتایا جائے گا کہ وہ 15 دن کے اندر دفتر جوائن کریں۔

تاہم اگر وہ نوٹس ان کے پتہ پر نہ پہنچ سکے تو متعلقہ محکمہ دو بڑے اخبارات میں اشتہار جاری کر کے متعلقہ ملازم کو 15 دنوں کے اندر دفتر آنے کا کہا جائےگا اور اگر اس کے با وجود میں ملازم ڈیوٹی سے غیر حاضر رہا تو ان کو نوکری سے برخواست کیا جائے گا۔

کسی بھی انکوائری مکمل ہونے اور متعلقہ ملازم کے خلاف الزامات ثابت ہونے کے بعد کمیٹی اس ملازم کو دوبارہ نوٹس جس میں تمام الزامات ثابت ہونے کے حوالے سے بار کی گئے ہوں، جاری کر کے ملازم کو سننے کا موقع دیا جائے گا۔

کمیٹی سے نوٹس ملنے کے بعد قانون کے مطابق متعلقہ ملازم کم از کم سات اور زیادہ سے زیادہ 15 دنوں کے اندر کمیٹی کو اپنا جواب جمع کرانا ہوگا کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں کی جائے۔

انکوائری کمیٹی کے فیصلے کے بعد متعلقہ محکمہ دیکھیں گے کہ کیا انکوائری درست طریقے سے کی گئی ہے اور اگر متعلقہ محکمے کو لگے کہ یہ انکوائری درست طریقے سے نہیں کی گئی ہے تو وہ کیس کو دیکھنے کے لیے دوسری کمیٹی بنانے کا اختیار رکھتا ہے۔

فیصلے کے بعد ملازم کو کیا حق حاصل ہے؟

قانون کے مطابق اگر کسی بھی ملازم کے خلاف انکوائری کمیٹی فیصلہ کر کے ان کو ملازمت سے برخواست یا کوئی بھی ایکشن لینے کا فیصلہ کرتی ہے، تو متعلقہ ملازم متعلقہ صوبے میں قائم ملازمین کے لیے سروس ٹریبیونل میں تین دن کے اندر درخواست جمع کرا سکتے ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کو روکا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ