سندھ حکومت کا ’فخر‘: تھر میں پانی فلٹر کرنے والے پلانٹس کی ’اکثریت بند‘

سندھ حکومت نے دعویٰ کیا کہ تھرپارکر ضلع میں 750 آر او پلانٹس لگا دیے گئے ہیں، جس کا ذکر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہر جگہ فخر سے کرتی نظر آتی ہے مگر ایک آڈٹ میں کہا گیا کہ کل 635 آر او پلانٹس ہی لگائے گئے ہیں۔

تپتی دھوپ میں گرم ریت پر چل کر درجن سے زائد کمسن بچیاں نیلے ڈرم اٹھائے کنویں کے پاس پہنچ کر انتظار کرنے لگی ہیں۔ کنویں پر دو نوجوان چار گدھوں کی مدد سے تین سو فٹ گہرے کنویں سے پانی کے ڈول نکال کر ساتھ ہی بنے ایک چھوٹے حوض میں ڈال رہے ہیں، جہاں سے بچیوں نے ڈرم بھرنا شروع کیا۔

یہ بچیاں ڈرم بھرنے کے بعد گدھے پر رکھ کر تقریباً 100 فٹ اونچائی پر واقع گاؤں کی طرف گدھوں کو ہانکنا شروع کرتی ہیں۔

پانی کے وزن سے گدھے کے پاؤں تپتی ریت میں دھنس رہے ہیں۔ راستے میں کچھ دیر سستانے کے لیے گدھا رک جاتا تو بچیاں ڈنڈی سے دوبارہ اسے ہانکنا شروع کر دیتی ہیں۔  

یہ مناظر سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے ضلع تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے نواحی گاؤں بجر مڑھو کے ہیں۔  

ایک سو گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے بچوں کی آدھی عمر پانی بھرتے گزری ہے۔ گاؤں کے رہائشیوں کے مطابق گاؤں اونچے ٹیلے پر ہے جہاں کنواں کھودنا ممکن نہیں، اس لیے ٹیلے سے نیچے کھلے میدان میں کنواں کھودا گیا، جس کی گہرائی گزرتے وقت کے ساتھ نیچے ہوتی جا رہی ہے۔

گاؤں کے رہائشی دورو بھیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کنو یں کی گہرائی وقت کے ساتھ نیچے ہورہی ہے۔ اب اگر 20 ڈول نکالتے ہیں تو پانی ختم ہوجاتا ہے، پھر دو، چار گھنٹے انتظار کرتے ہیں، تب دوبارہ پانی آتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پانی بہت کھارا ہے، مگر کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ حکومت نے گاؤں میں ایک آر او پلانٹ لگایا تھا، مگر کچھ عرصے بعد وہ بند ہو گیا۔‘

یہ صرف بجر مڑھو گاؤں کی کہانی نہیں ہے۔ ضلعی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق تھرپارکر میں 2400 چھوٹے بڑے گاؤں ہیں جن میں صدیوں سے کنویں سے پانی نکالنے کا یہی روایتی طریقہ ہے۔

چند سال پہلے جب شدید قحط سے متاثر تھر سے چھوٹے بچوں کی اموات کی خبریں مقامی میڈیا میں بڑے پیمانے پر شائع ہونا شروع ہوئیں تو سندھ حکومت نے تھر میں زیر آب کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے رورس اوسموسس یا آر او پلانٹ لگانے کا اعلان کیا۔  

سندھ حکومت نے دعویٰ کیا کہ تھرپارکر ضلع میں 750 آر او پلانٹس لگا دیے گئے ہیں، جس کا ذکر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہر جگہ فخر سے کرتی نظر آتی ہے۔

مگر بعد میں ہونے والے آڈٹ میں کہا گیا کہ کل 635 آر او پلانٹ لگے اور 115 آر او پلانٹ لگے ہی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان میں جنوری 2015 میں 30 کروڑ کی لاگت سے مٹھی شہر میں مصری شاہ کے مقام پر لگنے والا بڑا آر او پلانٹ بھی شامل ہے، جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ یہ ’ایشیا کا سب سے بڑا‘ آر او پلانٹ ہے، جو روزانہ 20 لاکھ گیلن کھارے پانی کو فلٹر کرکے پینے کے قابل بناتا ہے۔

مگر یہ ’ایشیا کا سب بڑا‘ آر او پلانٹ گذشتہ 10 مہینوں سے مکمل طور پر بند ہے۔  

مصری شاہ آر او پلانٹ کے آپریٹر تاراچند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تقریباً 10 ماہ سے ہمارا یہ پلانٹ بند پڑا ہے۔

ان کے مطابق: ’یہ آر اور پلانٹ مرمت کا کام نہ ہونے کے سبب بند ہوگیا ہے۔ ہمیں تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ جب یہ چلتا تھا تو مٹھی شہر کو ہر دوسرے تیسرے روز پانی سپلائی کیا جاتا تھا، مگر اب صرف دریا کا پانی مہینے میں ایک یا دو بار دیا جاتا ہے۔‘

سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز مٹھی کے صحافی کھاٹاؤ جانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے لگائے گئے آر او پلانٹس میں سے اکثر پلانٹس مکمل طور پر بند ہوگئے ہیں۔

ان کے مطابق: ’تھر میں لگنے والے آر اور پلانٹس میں آدھے سے زیادہ پلانٹس بند ہوگئے جبکہ باقی چلنے والے چند پلانٹس کے عملے کو تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔‘

مٹھی پریس کلب کے باہر آر او پلانٹس کے ملازمین گذشتہ ساڑھے پانچ مہینوں سے احتجاج کررہے ہیں۔  

احتجاج کرنے والے آر او پلانٹ آپریٹر خدا بخش بتاتے ہیں کہ ’تھرپارکار ضلع میں 750 آر او پلانٹ لگنے تھے، جن میں سے 635 پلانٹس پاک اوسیس کمپنی نے لگائے تھے جبکہ باقی آر او پلانٹس نہیں لگائے گئے۔ اب تو تقریباً سب پلانٹس مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں۔‘

دوسری جانب سندھ حکومت ان سارے دعوؤں کو غلط قرار دیتی ہے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے کہا کہ ’ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ تھر میں لگے سارے آر او پلانٹس بند ہو گئے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہوسکتا ہے کہ کسی جگہ پر دو آر او پلانٹس ہیں تو ان میں سے ایک بند ہو، ورنہ تو اب تک تھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوجاتا۔ اس معاملے پر ہم تحقیق کررہے ہیں اور اگر کسی جگہ پلانٹس بند ہوں گے تو جلد مرمت کیے جائیں گے۔‘

آر اور پلانٹ آپریٹرز کی تنخواہ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں عبدالرشید چنا نے کہا کہ آپریٹرز سندھ حکومت کے ملازم نہیں وہ کانٹریکٹر کے ملازم ہیں اور ہم اس بات کی تحقیق کریں گے کہ کانٹریکٹر نے انہیں تنخواہ کیوں نہیں دی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا