احترام رمضان اور سٹیج کی اداکارائیں

پاکستان کا سیاسی تھیٹر بھی اب ایک میوزیم کی شکل اختیار کر گیا ہے جس میں قوم کو روزانہ کی بنیاد پر ناقابل یقین مناظر دکھائے جاتے ہیں۔

15 جنوری 2007 کو لی گئی ایک تصویر میں ملتان میں کچھ سٹیج اداکارائیں شو سے پہلے تیاری میں مصروف ہیں۔ فائل تصویر: روئٹرز/ عاصم تنویر

تھیٹر کی معروف اداکاراؤں نے احترام رمضان کی خاطر سٹیج ڈراموں سے ایک ماہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اداکارہ مہک نور کے علاوہ ہما، شانزہ، صائمہ، خوشبو، آفرین اور ندا نے یہ فیصلہ اس مقدس مہینے کی فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔ کم از کم اخبار میں چھپنے والی اطلاع تو یہی ہے۔ ان کے اس احسن قدم سے میرے دل میں ان کے لیے ستائش کے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں۔ غلط نہ سمجھیے گا، زندہ دلانِ لاہور سے قریبی تعلق کے باوجود اس شہر عظیم کے ان سٹیج ڈراموں کو دیکھنے سے ہمیشہ محروم رہا ہوں جو یہاں کے باسیوں کے لیے بصری آسودگی اور وقتی جسمانی راحت کا اہتمام کرتے ہیں۔

مال روڈ سے گزرتے ہوئے کبھی پوسٹروں سے ابلتی ہوئی حسیناؤں کو دیکھ کر یہ ملال ضرور ہوتا ہے کہ میں اس نعمت سے کیوں محروم رہا ہوں، مگر پھر توجہ اس سیدھی سڑک پر مبذول کرنی پڑتی ہے جو جاتی تو کہیں نہیں لیکن خواہ مخواہ کی تہمت سے بچائے رکھتی ہے۔ ان اداکاراؤں کا کھانا پینا سٹیج سے بندھا ہوا ہے۔ مچلے ہوئے شائقین کو اپنی کارکردگی سے تفریح فراہم کرنا اور اپنے مرد ساتھیوں کے سستے زبانی جملوں کو برداشت کرکے ڈرامہ کرنا آسان کام نہیں۔ ایک ماہ کی چھٹی سے روحانی تطہیر کا جو بندوبست ہوگا، سو ہوگا لیکن رزق کی بھی قربانی ہے۔ کم از کم ان اداکاراؤں کو یہ احساس تو ہے کہ مچلی ہوئی عوام کو ماہ صیام میں بھڑکانا نقصان کا سودا ہے۔ کیوں عوام کو ایسے امتحان میں ڈالا جائے جس میں روحانی آدرش شریر کی شرارتوں سے ٹکرانے لگے۔

مگر ان اداکاراؤں کی یہ عظیم قربانی رائیگاں جا رہی ہے۔ ان کے تھیٹر اور سٹیج ڈرامے بند ہونے سے عوام کی ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ قومی سیاسی تھیٹر بے باکی سے جاری ہے۔ بلکہ اب یہ بے باکی بے شرمی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ایسا ناچ ہے کہ سٹیج کے تختے ٹوٹ رہے ہیں۔ دھمال کی وہ گرد ہے کہ لشکروں کی آندھی کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ ایسا ایسا فنکار سامنے آ رہا ہے کہ شائقین کے سامنے نہ تھمنے والے قدم بھی شرما کر پردے کی اوٹ میں چلے جائیں۔ اگرچہ ذہنی کوفت اور ملال ہر سو نظر آ رہا ہے لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ انٹرٹینمنٹ لاجواب ہے۔

 جس پُراعتماد انداز سے محترم فواد چوہدری ’سائنس اور ٹیکنالوجی والے‘ نے خلائی دوربین ہبل کو ناسا کی کامیابیوں کی فہرست سے نکال کر پاکستان کے کھاتے میں منتقل کیا ہے، اس سے یقیناً بہت سے سٹیج اداکاروں نے غیرمعمولی صلاحیت حاصل کی ہوگی کہ بھرے ہال میں عقل اور حقائق سے عاری جملے پھینکنے کا موثر طریقہ کیا ہے، مگر یہ ایک چھوٹی مثال ہے۔ پاکستان کا سیاسی تھیٹر اب ایک میوزیم کی شکل اختیار کر گیا ہے جس میں قوم کو روزانہ کی بنیاد پر ناقابل یقین مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے تجربات کی وسیع و عریض بارادری بھی قائم کی گئی ہے جس کے دریچوں سے آپ وہ نظارے دیکھ سکتے ہیں جن کی نظیر نیو یارک کے عالمی شہرت یافتہ پی ٹی بارنم سرکس میں بھی نہیں ملے گی۔

 یاد رہے کہ مسٹر پی ٹی بارنم نیویارک کے بیچ حیرت انگیز عجوبوں پر مبنی ایک میوزیم چلایا کرتے تھے جس میں وہ نگاہوں کے سامنے ناقابل یقین عجوبے بٹھا کر خوب پیسے کماتے تھے۔ اس کے پاس ایک عمر رسیدہ بوڑھی عورت تھی جس کے منہ میں نہ دانت تھے نہ پیٹ میں آنت۔ مسٹر بارنم اس خاتون کو پونے دو سو سالہ پرانا تولیدی عجوبہ قرار دیتے تھے۔ لوگ ڈالرز خرچ کر کے اس خاتون کو دیکھتے اور حیرت زدہ ہوتے۔ اس کے پاس ایک جل پری بھی تھی جس کی دھوم ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ داڑھی والی عورت، چار ٹانگوں والی بچی اور جنگلیوں کا جوڑا جو ہر وقت لڑتا بھڑتا رہتا اور شائقین میں گھس کر لوگوں کو ادھر ادھر پھینک کر اپنے قد و قامت سے کہیں زیادہ وزن اٹھانے کی استطاعت کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ بوڑھی عورت کی اصل عمر 81 سال تھی۔ جل پری بندر کے جسم کے ساتھ مچھلی کی دم لگا کر حنوط کیا ہوا ایک ڈھانچہ تھا۔ عورت کی داڑھی گھسیٹ گھسیٹ کر شیو کرنے سے نکالی گئی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی اس نظر کے دھوکے کو سچ سمجھتے رہے اور حقیقت پانے کے باوجود بڑی تعداد میں اصرار کرتے رہے کہ مسٹر پی ٹی بارنم کے میوزیم میں موجود عجوبے حقیقت ہیں اور ان کی اصل حقیقت جھوٹ ہے۔ مسٹر پی ٹی بارنم ایک امیر کے طور پر مرا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والوں نے بھی خوب مال بنایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے یہاں پر جل پری اور منہ جلی بڑھیا تو نہیں لیکن حالات عجائبات، افسانوی کرداروں اور نظر کو باندھنے والے چالاکیوں سے بوجھل ضرور ہیں۔ حقیقت کچھ ہے فسانہ کچھ۔ خبر کچھ ہے اور بیانیہ کچھ۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے جان چھڑانے اور اس کو بدترین استحصال کا ذمہ دار قرار دینے کے بعد آج ہم اسی کی گود میں بیٹھ کر اسی کے ہاتھوں سے تیار کیا ہوا خشک دودھ چسکارے لے لے کر پی رہے ہیں۔ ہم نے معاشی آزادی کو اپنا شعار بنانے کا قومی عہد کیا تھا مگر تمام معاشی ٹیم ایک ہی ڈانٹ کے بعد تبدیل کر دی۔ قومی اثاثوں کی حفاظت پر مامور بہترین اور بے داغ کیریئر والے افسران کو جوتے مار کر نکال دیا۔ یہ تو حوصلہ ہے اسد عمر کا کہ چشم پُر آب پر کالی عینکیں لگا کر ابھی بھی مسکرا رہے ہیں، ورنہ جو ان کے ساتھ ہوا اس کے بعد سر اٹھا کر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ہم ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قرضوں نے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے اور دوسری طرف اتنے قرضے لے رہے ہیں کہ تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹنے کو ہیں اور کچھ ٹوٹ بھی چکے ہیں۔ آمدنی بڑھانے کے لیے محصولات اکٹھے کرنے والے ادارے ایف بی آر کو ایک اعزازی چیئرمین نواز دیا گیا جو بغیر تنخواہ کے کام کرے گا لیکن جس کے اپنے بیان کے مطابق بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے یا تو کسی کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور یا بدعنوانی کا باعث بنتے ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ایسا اضافہ طے کر لیا ہے کہ درمیانے اور اس سے نچلے طبقات قرض لینے اور بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح، بہتری اور ترقی کی گردان بھی جاری ہے۔

ایک سال میں معیشت کی ترقی اور زراعت سمیت دوسرے شعبے بدترین جمود کا شکار نظر آ رہے ہیں اور دوسری طرف دودھ اور شہد کی نہروں کا ایسا قصہ بھی بیان کیا جا رہا ہے کہ دیوانے کا خواب سننے میں سچا لگتا ہے۔ اندرونی استحکام، بیرونی خطرات اور غیریقینی کی کیفیت ایک خوفناک آندھی کی طرح آسمان پر ساکت نظر آ رہی ہے مگر سیاسی جوڑ توڑ اور نظام کا ٹیٹوا دبانے کی عادت جوں کی توں موجود ہے۔ گھر چل نہیں رہا، دنیا چلانے کی باتیں کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے لیے دھیلا نہیں ہے، بین الاقوامی سائنسی فہرست میں سب سے نچلی سطح پر موجود ہیں لیکن روحانیت کوسپر سائنس بنا رہے ہیں۔

ایک بندر ہے جس کے ساتھ مچھلی کی دم جڑی ہوئی ہے، ایک عورت ہے جس کے چہرے پر سخت شیو کر کے داڑھی اگا دی گئی ہے۔ ایک عجائب گھر ہے، ایک قومی تھیٹر ہے۔ کاش احترام رمضان میں اس تھیٹر کے اداکاروں کو بھی جلدی سے اعتکاف میں بٹھایا جا سکے تاکہ وہ سوچ اور سمجھ کے اس وقفے سے فائدہ اٹھا سکیں اور ہم شائقین عید تک ہیجان اور پریشانی کے امتحان سے بچ سکیں۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر