دل اور دماغ کی دھینگا مشتی

دل کے ہاتھوں مار کھانے والے پھر مارے ہی جاتے ہیں، اسی لیے صحافیوں کے دماغ نے سیلف سینسر شپ جیسے ہتھیار ایجاد کر لیے ہیں۔ دماغ کو بلاوجہ کا سپرمین بننے کی جلدی نہیں وہ سپائیڈر مین کی طرح جال پہ جال بننے کو فوقیت دیتا ہے تاکہ نشانہ اپنے آپ پھنسے خبر بنے۔

(پکسابے)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


دل تو کہتا ہے کہ کوئی علمی بحث ہو، کوئی شعور و آگہی کی بات کریں۔ پر دماغ ہے کہ جھٹ سے جھڑک دیتا ہے کہ بھائی خون زیادہ پمپ کرنے کا موڈ ہے تو چہل قدمی کرلو، ورزش کرو یہ بحث شعور آگہی والے الفاظ بول کر کیوں ڈراتے ہو۔

میں ساری زندگی کے دکھ بھگت کر تم سے کہتا ہوں

بہت دکھ دے گی تم میں فکر اور فن کی نمو مجھ کو

دماغ نے مملکت خداداد میں پبلک ڈیمانڈ اور غیر قانونی ریمانڈ دونوں کے حالات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ دل سے کہو چپکا بیٹھے۔ دماغ نے جسم میں موجود ہڈیوں کی گنتی بھی کی ہے، بدن میں دوڑتے خون کو بھی ماپا ہے، حوصلہ اور سکت کو بھی جانچا ہے۔ پورے حساب کتاب کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہے کہ حق اورسچ کا علم کسی اور کہو بلند کر لے۔

دل نے بےخطر آتش نمرود میں کودنے والے کو اپنا آئیڈیل بنا رکھا ہے۔ بہتر ساتھیوں کے ساتھ ہزاروں کے لشکر کو انکار کرنے والا بھی اس کا رول ماڈل ہے۔

دماغ کہتا ہے کہ ان بےدھڑک دل دار حق کے پیروکار حضرات کی قربانیوں کو سراہے جاو مگر خود نمرود کی آگ کی تپش میں ہاتھ تاپ لو کودنے کی جسارت مت کرنا۔

دل میں نکلتی اور دل کو جاتی شریانیں بڑا زور لگاتی ہیں کہ فشار خون بلند ہو اور بندہ عالم اضطراب میں سب کچھ سچ سچ بک دے، ظالم کو ظالم کہہ دے، قاتل کو قاتل کے نام سے پکارے اور مکار کی مکاری کو بےنقاب کر دے۔ مگر دماغ سمجھاتا ہے کہ جیب میں روکڑا ہے نہ پیچھے کوئی بڑا جو بچانے آ جائے، پمز ہسپتال کی ایمرجنسی پہنچائے جاو وہ وقت ہی کیوں لاو۔

دل کو اس سے کیا کہ حق سچ کہنے کی پاداش میں بھلے چار چوٹ کی مار پڑے یا شمالی علاقہ جات کی سیر ہو جائے۔ یہ تو جس تن لاگے وہ تن جانے۔ دل ہے کہ بغاوت پہ اکسائے جائے ہے، دماغ ہے کہ اسے پانی پلائے ہے۔ دماغ جانتا ہے کہ دل مراوئے گا اس لیے کم از کم اس کی نہیں ماننی۔ دل سمجھتا ہے کہ بس ایک لمحہ مل جائے تو وہ زباں درازی پہ لگے تالے توڑ دے گا۔

دل کو جالب، فیض، اقبال، افتخار عارف اور جون ایلیا نے خود سر بنایا۔ دماغ کو شطرنج نے چالیں اور گالف نے صبر کے ساتھ نشانہ لینا سکھایا۔

دل خواہ مخواہ نیلسن مینڈیلا کی تلاش میں نواز شریف سے جا ٹکرایا، اسے بھٹو کا جوش میں مائیک گرانا اچھا لگا، جاوید ہاشمی کی بار بار بغاوت پہ واہ واہ کی، اسے مریم کی جلی کٹی باتیں پسند آئیں، شاہد خاقان عباسی کے کھرے لہجے کو خوب داد دی، اتنا تو کوئی باولا ہے یہ دل کہ گھنٹوں الطاف بھائی کو سنتا رہا اور اف تک نہ کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دماغ ایسا اندھا مقلد نہیں کہ جس نے ہاتھ پکڑا اسی کا ہو لیا۔ بڑی نپی تلی چیز بنائی ہے یہ اللہ نے۔ دماغ  کہی سنی پہ نہیں جاتا وہ دماغ استعمال کرتا ہے۔ اسے شہباز شریف کا سنبھل سنبھل کہ پاوں رکھنا پسند ہے۔ اسے چوھدری نثار کی چپ میں چھپے معنی کریدنا اچھا لگتا ہے۔ جہانگیر ترین کے مائنڈ گیمز اچھے لگتے ہیں۔ دماغ کو اسٹیبلشمنٹ کی جوڑ توڑ کسی دلچسپ میچ جیسی لگتی ہے۔

دماغ کی اپنی بڑی ترجیحات ہیں۔ اسے آصف علی زرداری کا وہ شہرہ آفاق قول پسند ہے ’ایسا دل رکھتے ہی نہیں جو ٹوٹے۔‘

دل تو خودکش سا خودکش ہے۔ اچانک آغاز پہ بضد اور انجام سے بے پرواہ۔ اسے ٹیپو سلطان  کا ایک دن کا شیر بننے کا بڑا شوق ہے۔ دماغ ایسٹ انڈیا کمپنی سے اگلے دو سو برس کی منصوبہ بندی سیکھ چکا ہے۔

دل کے ہاتھوں مار کھانے والے پھر مارے ہی جاتے ہیں، اسی لیے صحافیوں کے دماغ نے سیلف سینسر شپ جیسے ہتھیار ایجاد کر لیے ہیں۔ دماغ کو بلاوجہ کا سپرمین بننے کی جلدی نہیں وہ سپائیڈر مین کی طرح جال پہ جال بننے کو فوقیت دیتا ہے تاکہ نشانہ اپنے آپ پھنسے خبر بنے ناکہ صحافی خود خبر بن جائے۔

دل کا کیا ہے کبھی یہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ دھڑک جاتا ہے کبھی کوئٹہ کے ہزارہ افراد کے جنازے اس دل کی دھڑکنیں بےترتیب کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں کسی غیرمسلم کے ساتھ مذہبی جنونیوں کی زبردستی دیکھے یا بھارت میں سرعام لہولہان مسلمان کو جے شری رام بولتا دیکھے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ کبھی یہ ہزاروں میل دور بیٹھے فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکنے لگتا ہے کبھی کشمیر کے بچوں کا سوچتا ہے تو بےچین ہو جاتا ہے۔

دماغ اس بےچارے کو کہاں کہاں راستہ دکھائے، کہاں کہاں روک کر سمجھائے کہ صرف دھڑکنا تڑپنا، بے چین ہونا، اچھلنا، پھڑکنا ہی کافی نہیں ہوتا۔ کچھ اس عقل شریف اس فطین دماغ سے بھی خدمات حاصل کر لیا کرو۔

دماغ یہ کب تک بتائے کہ اندھیرے صرف اس دل کے چاہنے سے کم نہیں ہوتے، تدبیر بھی کوئی چیز ہے۔ دماغ ٹوک ٹوک کر اور کتنا ہوشیار کرے کہ صرف جذبات انسان کو بند گلی تک لے جاتے ہیں، یہ جان ہوگی تو حق بات ہوگی، یہ جان ہوگی تو انصاف کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں، یہ جان بچے گی تو کسی اور کی جان بچائے جاسکے گی۔

دل و دماغ کے درمیان یہ رسہ کشی حضرت انسان کی پیدائش سے شروع ہوئی۔ انسانی ذہانت کا ارتقا اسے فلک کے کہکشاں تلک لے گیا مگر دل اور دماغ کی یہ دھینگا مشتی اب بھی جاری ہے۔ یقین نہ آئے تو پاکستانی صحافت، پاکستانی سیاست، پاکستانی معاشرت دیکھ لیں۔ کہیں عقل سلیم شکست سے دوچار ہے کہیں شاطرانہ چالوں کے آگے دل کو مات ہوتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ